ایام کے الفاظ سے بعض اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رات کے وقت قربانی نہیں کرنا چاہیے، چنانچہ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق، امام ثوری رحمہم اللہ اور جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ ایام قربانی کی راتوں میں قربانی ذبح کرنا جائز مع الکراہت ہے۔ جبکہ امام مالک اور اصحاب مالک سے منقول ہے کہ قربانی کی راتوں میں جانور ذبح کرنا جائز نہیں۔ نیز رات کے وقت ذبح شدہ قربانی کا جانور ایک گوشت والی بکری ہے جو قربانی کے لیے کافی نہیں۔‘‘[1]
علامہ شوکانی لکھتے ہیں: ’’قربانی کی راتوں میں قربانی کی ممانعت اور کراہت کا دعویٰ محتاج دلیل ہے اور مذکورہ حدیث میں ایام تشریق کے ذکر سے اگرچہ ظاہری اعتبار سے راتوں کو خارج کیا جاتا ہے، لیکن ایام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ ان میں دن اور رات دونوں شامل ہیں۔‘‘[2]
اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے:
٭ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے۔[3]
علامہ البانی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ روایت انتہائی ضعیف ہے۔[4] اس روایت میں سلیمان بن مسلمہ خبائری متروک ہے۔[5]
٭ حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت کھجوریں توڑنے، فصل کاٹنے اور قربانی ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے۔[6]
یہ حدیث بھی مرسل ہے کیوں کہ حسن بصری تابعی اسے صحابی کے واسطہ کے بغیر براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، نیز اس میں حفص بن غیاث کی تدلیس ہے۔[7]
ہمارے رحجان کے مطابق دس ذوالحج کی رات کے علاوہ دیگر راتوں میں قربانی کرنا جائز ہے کیوں کہ مطلق طور پر ایام کے لفظ میں دن اور رات دونوں شامل ہیں۔ البتہ دس ذوالحج کی رات اس میں شامل نہیں۔ واللہ اعلم!
قربانی کا جانور تبدیل کرنا
سوال: میں نے قربانی کے لیے ایک مینڈھا پالا ہے لیکن میرے حالات انتہائی کمزور ہیں، کیا میں اسے فروخت کر کے اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہوں جبکہ میرا سستی قربانی کرنے کا ارادہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشی میں میری رہنمائی کریں۔
جواب: قربانی کے لیے جو جانور نامزد کر دیا گیا ہے اسے فروخت کرنا، یا اسے تبدیل کرنا جائز نہیں۔
چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عمدہ بختی اونٹ بطور ھدی حرم کی طرف بھجوایا، انہیں اس کے عوض تین سو دینار پیش کیے گئے۔
|