واضح رہے کہ شیطان سے ہوا کا خارج ہونا بعید از امکان نہیں کیوں کہ اس کا بھی ایک جسم ہے جسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے، یہی عذا اس کا سبب بنتی ہے، اس کی مذکورہ حرکت کی کئی ایک وجوہات ہیں جنہیں محدثین نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
٭ وہ اس نازیبا حرکت سے اذان کے ساتھ مذاق کرتا ہے جیسا کہ غیر مہذب لوگوں کا شیوہ ہے۔
٭ وہ دانستہ یہ کام کرتا ہے تاکہ اذان کی آواز اس کے کانوں میں نہ آسکے کیوں کہ جب قریب شور برپا ہو تو دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
٭ اذان کی وجہ سے اس پر بوجھ پڑتا ہے، وہ اس دباؤ کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔
جیسے کسی آدمی کو انتہائی پریشان کن اور دہشت ناک معاملہ پیش آگیا ہو تو ایسے حالات میں خوف کی وجہ سے اس کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور اسے خود پر کنٹرول نہیں رہتا، اس بے بسی کے عالم میں اس کا پیشاب اور ہوا از خود خارج ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ شیطان لعین جب اذان سنتا ہے تو اس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے یعنی وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ ایک د وسری حدیث میں ہے کہ وہ مقام روحاء تک بھاگتا چلا جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔[1]
مقام روحاء، مدینہ طیبہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر ہے۔[2]
بہرحال اس حدیث سے اذان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ وضاحت کر دی گئی ہے۔ واللہ اعلم
دوران جماعت سنت فجر پڑھنا
سوال :ہمارے ہاں عام طور پر جب فجر کی نماز کھڑی ہوجاتی ہے تو کچھ لوگ جلدی جلدی مسجد کے کسی کونے میں فجر کی دو سنت پڑھ کر جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق ایسا کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے؟ وضاحت کردیں۔
جواب: جب فجر کی نماز کھڑی ہو جائے تو نماز باجماعت کے علاوہ ہر قسم کی نماز منع ہے خواہ سنت ہو یا نوافل، راتبہ ہوں یا غیر راتبہ، کیوں کہ حدیث میں ہے: ’’جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘[3]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس مسئلہ کو دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ البتہ کچھ اہل علم نے نماز فجر کی تکبیر کے بعد چند شرائط کے ساتھ فجر کی دو سنت ادا کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے۔ چنانچہ متداول درسی بخاری کے حاشیہ پر بیہقی کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی گئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’جب نماز کی تکبیر ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی، ہاں فجر کی دو سنتیں پڑھی جا سکتی ہیں۔‘‘ بلاشبہ یہ حدیث سنن بیہقی میں مروی ہے۔[4]
لیکن امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد خود وضاحت کی ہے کہ مذکورہ اضافہ بالکل بے اصل اور بے
|