اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کرنا، خادم رکھنا اور اخراجات کے سمیت رہائش حاصل کرنا بنیادی ضروریات ہیں، ان کے علاوہ حیلے بہانے سے یا چوری چھپے اپنی تحویل میں دئیے گئے فنڈز سے مزید سمیٹنے کی کوشش کرنا بہت بڑی اور بری خیانت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وقفی جائیداد کے متعلق یہ شرط عائد کی تھی:
’’جو اس کا متولی بنے وہ اس سے خود بھی کھا سکتا ہے اور اپنے دوست کو بھی کھلا سکتا ہے البتہ وہ مال جمع نہیں کرسکتا۔‘‘[1]
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو وقفی جائیداد کا نگران ہوگا وہ اپنی محنت کا واجبی سا معاوضہ وقفی جائیداد سے لے سکتا ہے۔ یعنی وہ اس قدر وقف فنڈ سے لے سکتا ہے جس سے اخراجات پورے ہو سکیں۔ بالفاظ دیگر فضولیات کی بجائے ضروریات پورا کرنے کی گنجائش ہے۔ نگران حضرات درج ذیل حدیث کو ضرور پیش نظر رکھیں:
’’کچھ لوگ بیت المال میں ناحق تصرف کرتے ہیں، قیامت کے دن ان کے لیے آگ ہوگی۔‘‘[2]
ہمارے رجحان کے مطابق اس حدیث کے پیش نظر دینی مدارس کے مہتمم حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ جمع شدہ چندہ سے اپنی بچیوں کو بڑے گرانقدر جہیز دینے، بچوں کی دھوم دھام سے شادیاں کرنے اور ان کے لیے محلات تعمیر کرنے کے مجاز نہیں ہیں، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ معروف طریقہ کے مطابق اپنے لیے معقول ماہانہ مشاہرہ مقرر کر لیا جائے پھر اسی سے ضروریات زندگی کو پورا کیا جائے۔ واللہ اعلم!
چوری کا مال خریدنا
سوال: باڑا مارکیٹ میں چوری کا مال فروخت ہوتا ہے، گاڑیوں کے پرزے بھی چوری شدہ ہوتے ہیں، کیا شرعی طور پر انہیں خریدا جا سکتا ہے؟ جب کہ وہ عام بازار کے لحاظ سے بہت سستے ہوتے ہیں، اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا ہے؟
جواب: چوری کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دین قائم رہنے کی بیعت کرتے تھے تو یہ بات بطور خاص کہتے: ’’تم چوری نہیں کرو گے۔‘‘[3]
چوری کردہ سامان بھی حرام ہوتا ہے، اس کا استعمال کسی صورت میں جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی مسلمان کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں۔‘‘[4]
جب چوری کرنا، ناجائز اور مسروقہ سامان حرام تو اس کی خرید و فروخت کیونکر جائز ہو سکتی ہے؟ ہم ایک دوسرے پہلو سے بھی اس خرید و فروخت کا جائزہ لیتے ہیں کہ چوری کردہ اشیاء کو جو فروخت کررہا ہے وہ ان کا مالک نہیں اور غیر مملوکہ چیز فروخت کرنا اور اسے خریدنا ناجائز ہے۔ اگر چیز کا مالک کسی کو فروخت کرنے یا خریدنے کے اختیارات دے دے اور اسے اپنی طرف سے وکیل مقرر کر لے تو ایسے حالات میں غیر مملوکہ چیز کو فروخت کیا جا سکتا ہے اور اسے خریدا بھی جا سکتا ہے لیکن چوری کردہ
|