ہمارے ہاں بیوٹی پارلروں میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے، ان میں حسن و جمال اور زیبائش و آرائش کے ایسے ہی طریقے سکھائے جاتے ہیں اور عورتیں انہیں اختیار کرتی ہیں جو محض دھوکے فریب پر مبنی ہوتے ہیں، جیسا کہ بالوں کو سنوارنے کے لیے مختلف اسٹائل، بناؤ سنگھار کے ذریعے عورت کے حلیے کو بدل دیا جاتا ہے۔ سیاہ رنگ کی عورت کو سفید فام بنا دیا جاتا ہے اور سفید رنگ والی کو رنگ و روغن کے ذریعے اسے مزید نکھار دیا جاتا ہے۔ یہی وہ کام ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے، چونکہ یہ کام حدیث کی رو سے حرام ہے اور باعث لعنت ہیں اس لیے بیوٹی پارلر کا کاروبار بھی حرام اور ناجائز ہے۔ ہاں اگر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے شادی کے موقع پر دلہن کو سنوارا جائے تو اس کے جواز کی گنجائش ہے لیکن ہمارے ہاں اس گنجائش سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ناجائز کاموں کی تربیت دی جاتی ہے۔ نیز مکر و فریب کی صورتوں کو اختیار کیا جاتا ہے، اس بنا پر یہ کام محل نظر ہے۔ واللہ اعلم!
ہاؤسنگ سکیم کا ایک غلط طرز عمل
سوال: ہمارے ہاں عام طور پر جو ہاؤسنگ سکیم ،زمین کا کاروبار کرتی ہیں، اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جگہ خرید کر اسے مختلف پلاٹوں میں تقسیم کرتی ہے پھر درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اور ایڈوانس ہر درخواست کے ساتھ ایک لاکھ روپیہ جمع کیا جاتا ہے، پھر قرعہ اندازی کے ذریعہ پلاٹ تقسیم کیے جاتے ہیں جن کا قرعہ نہیں نکلتا انہیں پچانوے ہزار روپے واپس کیے جاتے ہیں۔ کیا پانچ ہزار روپے کی کٹوتی شرعاً جائز ہے؟
جواب: شریعت کی رو سے ہر ہاؤسنگ سکیم کا طریقہ کار یہ ہونا چاہیے کہ جگہ خریدنے کے بعد اس کے پلاٹ بنائے جائیں، حسب ضابطہ پارک، سڑکیں وغیرہ نقشے میں ظاہر کر دی جائیں پھر اس کے فروخت کرنے کا اعلان کیا جائے، اس کھلی سکیم کے تحت جو چاہے قیمت ادا کر کے پلاٹ خرید لے۔ اس سے فریقین میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
صورت مسؤلہ اور اس طرح کی دیگر کئی اسکیمیں شرعاً ناجائز ہیں، کیوں کہ نفع اندوزی کے لیے پلاٹوں سے زیادہ درخواستیں وصول کی جاتی ہیں، اس طرح ان کے پاس کافی رقم جمع ہو جاتی ہے جسے کاروبار میں لگا کر اس سے نفع کمایا جاتا ہے، پھر قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹوں کی تقسیم عمل میں آتی ہے، جس کا قرعہ نکل آتا ہے وہ بقیہ رقم ادا کر کے پلاٹ کا مالک بن جاتا ہے اور جن کا قرعہ نہیں نکلتا اس کا پانچ ہزار روپیہ کاٹ کر بقیہ رقم واپس کر دی جاتی ہے۔ اب اس میں رقم ایڈوانس جمع کروانے والے کا کیا قصور ہے کہ اسے پانچ ہزار روپے کا نقصان پہنچایا جائے؟ ایسا کرنا دھوکہ اور ظلم ہے، جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔
ہمارے رجحان کے مطابق رقم بٹورنے کے لیے اس طرح قرعہ اندازی کرنا بھی ناجائز ہے اور اصل رقم سے کچھ رقم منہا کرنا بھی باطل طریقے سے مال کھانا ہے جس کی قرآن حکیم میں سخت وعید آئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾[1]
|