راستہ تنگ کرنا
سوال: آج کل اگر کسی گھر میں فوتگی ہو جائے یا نکاح کی تقریب ہو تو وہ آنے جانے والے راستہ کے دونوں طرف قناتیں لگا کر اسے بند کر دیتے ہیں، جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے، اس طرح راستہ روکنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: دین اسلام میں ہر وہ عمل اچھا اور مطلوب ہے، جس سے عام انسانوں کو فائدہ پہنچے، ضروری نہیں کہ وہ فائدہ صرف مسلمانوں تک محدود ہو، بشرطیکہ اس عمل سے اسلام کے کسی دوسرے حکم کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔ مثلاً راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’چالیس خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی مسلمان ثواب کی نیت سے کسی ایک کو بھی عمل میں لے آئے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کریں گے۔ ان میں سے ایک راستہ سے تکلیف دہ چیز کا دورکرنا ہے۔‘‘[1]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ایمان کے کئی ایک شعبے ہیں، ان میں سے سب سے معمولی راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کرنا ہے۔‘‘[2]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایک آدمی جس نے کوئی بھی نیکی کا کام نہیں کیا تھا، اس نے راستہ سے ایک کانٹے دار ٹہنی دور کر دی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کر لیا اور اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فرما دیا۔‘‘[3]
الغرض راستے کی رکاوٹ خواہ کسی طرح کی ہی ہو اور اسے دور کرنا ایمان کا حصہ اور بخشش کا سامان ہے اور اس کے برخلاف راستے میں رکاوٹ ڈالنا، ناجائز، حرام اور بھاری گناہ ہے۔ لیکن ہم لوگ اسے معمولی خیال کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات ایسی حرکت کو اپنا حق خیال کرتے ہیں مثلاً:
٭ کسی دینی پروگرام کے وقت آنے جانے کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔
٭ تقریب یا خوشی کے موقع پر قناتیں لگا کر راستہ میں رکاوٹ ڈال دی جاتی ہے۔
٭ احتجاج کرتے وقت سڑکوں اور راستوں کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔
حالانکہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں بلکہ انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا رویہ اختیار کرنا بھی واجب ہے۔ واضح بنیادی امور سے صرف نظر کرنے کے باعث نیکی کے عظیم کام بھی بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص راستے کا حق ادا نہ کرنا بہت بڑا جرم ہے۔
|