اگرچہ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے تاہم اسے سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کی تائید میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید الفطر کچھ تاخیر سے ادا کرتے جبکہ عیدالاضحی جلدی ادا کرتے تھے۔‘‘[1]
عیدالاضحی کے وقت لوگوں نے قربانی کرنا ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کو جلدی فارغ کر دینا چاہیے جبکہ عیدالفطر کے بعد کوئی مصروفیت نہیں ہوتی، اس لیے اس کی ادائیگی میں ذرا تاخیر کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ زیادہ دیر کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم
چاند رات میں خصوصی عبادت کرنا
سوال :چاند رات میں عبادت کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے متعلق کچھ احادیث بھی بیان کی جاتی ہیں، ان کی استنادی حیثیت کیسی ہے؟ وضاحت کر دیں۔
جواب: عیدین کی رات خصوصی عبادت کرنا کتاب وسنت سے ثابت نہیں، ہاں اگر کوئی شخص پابندی سے تہجد پڑھتا ہے تو اس رات تہجد پڑھی جا سکتی ہے لیکن عیدین کی رات کا عبادت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلہ میں حدیث بیان کی جاتی ہے:
’’جو شخص عیدالفطر اور عیدالاضحی کی رات عبادت کرتا رہا، اس کا دل اس دن بھی مردہ نہیں ہوگا جس دن تمام دل مردہ ہو جائیں گے۔‘‘[2]
یہ روایت خود ساختہ اور بناوٹی ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی عمر بن ہارون البلخی ہے جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے متروک قرار دیا ہے۔‘‘[3]
میزان الاعتدال میں اس کے متعلق ’’کذاب خبیث‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔4[4]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوع کہا ہے۔[5]
عیدگاہ کی طرف پیدل جانا
سوال :ہمارا گھر عیدگاہ سے کافی دور ہے، میں اپنے بچوں کے ہمراہ وہاں سواری پر جاتا ہوں، مجھے چند دوستوں نے کہا ہے کہ عیدگاہ پیدل جانا مسنون عمل ہے، اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’عیدگاہ میں پیدل اور سوار ہو کر جانا۔‘‘[6]
|