معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو اپنے اختیار و ارادہ سے اپنے ورثاء کی طرف منتقل کرنا چاہتا ہے لیکن وراثت کے طور پر ایسی تقسیم اپنی زندگی میں جائز نہیں۔ کیوں کہ انتقال ملکیت کی آخری صورت میں وراثت کا استحقاق اسی وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ مورث کی موت حقیقتاً یا حکماً واقع ہو چکی ہو۔ اپنی زندگی میں جیتے جی کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اللہ کے قانون اور ضابطے کو ہاتھ میں لے کر اس کی زندگی میں فوت ہو گیا تو اسے جو حصہ دیا گیا تھا وہ اس کا وارث نہ تھا۔ کیوں کہ وراثت میں مورث کی موت کے ساتھ وارث کی زندگی کا تعین انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ مورث کی زندگی میں فوت ہو جانے والا خود بخود وراثت سے محروم ہو جاتا ہے۔
اس بناء پر صورت مسؤلہ میں باپ کی زندگی میں بیٹے کا اپنے ’’شرعی حصے‘‘ کا مطالبہ کرنا اور باپ کا اس پر راضی ہونا دونوں ناجائز ہیں۔ البتہ ہبہ یا عطیہ میں بھی ایسا ہو سکتا ہے لیکن اسے شرعی حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ تو اپنے والد کی رضامندی پر موقوف ہے۔ ہبہ میں دوسری اولاد کو بھی مساویانہ طور پر شامل کرنا ہو گا۔ ہاں اگر بیٹا باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو تو اسے علیحدگی کے وقت اس کا کاروباری حصہ دیا جا سکتا ہے۔ بطور وراثت اپنے والد کی جائیداد سے شرعی حصے کا والد کی زندگی میں حق دار نہیں۔ واللہ اعلم!
جائز وصیت کا نفاذ
سوال: میری نانی فوت ہوئی تو اس کے پاس ۱۳۵ گرام طلائی زیور تھا، اس نے اس کا نصف میرے لیے وصیت کر دیا، جبکہ اس کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں موجود ہیں۔ کیا وصیت پر عمل کرنے کے بعد باقی زیور تقسیم کیا جائے گا؟ اس کی تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔
جواب: میت کا ترکہ تین مراحل طے کرنے کے بعد ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک جائز وصیت کا نفاذ ہے۔ جائز وصیت کی تین شرائط حسب ذیل ہیں:
٭ وصیت کسی بھی صورت میں ایک تہائی سے زائد نہ ہو۔
جیسا کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
’’کیا میں اپنے ذاتی مال سے دو تہائی وصیت کر دوں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:’’آدھے مال کی وصیت کر دوں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔‘‘
انہوں نے عرض کیا، ایک تہائی مال کی وصیت کر دوں؟‘‘
|