چاہتا ہوں کہ اپنی جمع پونجی کسی مدرسہ کو دے دوں، کیا میں ایسا کر سکتا ہوں، جبکہ میرے حقیقی چچا کی اولاد لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں، اس سلسلہ میں میری راہنمائی کریں؟
جواب: ہمارے ہاں اکثر لوگ جنہیں خوف آخرت ہوتا ہے، وہ ایسا کرتے ہیں کہ مرتے وقت وہ سب کچھ فی سبیل اللہ دے جاتے ہیں حالانکہ شرعی طور پر ایسا کرنا جائز نہیں کیوں کہ شرعی ورثاء کا حق دبانا کسی صورت میں جائز نہیں۔
چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں بیمار ہو گیا اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ مجھے ایسی سرزمین میں موت آئے جہاں سے میں ہجرت کر کے گیا ہوں۔ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری تیمار داری کرنے کے لیے تشریف لائے۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہ دی۔
پھر نصف مال کی وصیت کرنے کے متعلق عرض کیا تو اس کی بھی اجازت نہ دی۔
میں نے ایک تہائی کی اجازت طلب کی تو آپ نے اس کی اجازت دے دی۔
لیکن فرمایا: کہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: اے سعد! اگر تو اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جائے گا تو یہ بہت اچھا ہے مبادا وہ تیرے بعد لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کریں، تو جو بھی خرچ کرے گا، وہ تیرے لیے صدقہ ہو گا حتی کہ اگر تو خوش طبعی کے طور پر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے گا تو وہ بھی تیرے لیے صدقہ اور باعث ثواب ہو گا (ان دنوں آپ کی ایک ہی بیٹی تھی)۔ [1]
صورت مسؤلہ میں بھی سائل کی ایک ہی بیٹی ہے جس کی اس نے شادی کر دی ہے، اس کے علاوہ اس کے چچا کی اولاد بھی زندہ ہے، وہ اپنی تمام جائیداد کسی مدرسہ یا مسجد کو دینا چاہتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر سائل ایسا نہیں کر سکتا، اپنا تمام مال اللہ کی راہ میں دینے کی اجازت نہیں جبکہ اس کے شرعی ورثاء موجود ہیں۔ اس کے شرعی ورثاء اس کی شادی شدہ بیٹی اور چچا کی نرینہ اولاد ہے بشرطیکہ چچا موجود نہ ہو، اگر چچا زندہ ہے تو اس کی موجودگی میں چچا کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس کی وفات کے بعد بیٹی کو نصف اور باقی نصف چچا یا اس کی نرینہ اولاد کو ملے گا، بقیہ اولاد اس سے محروم ہے، کیوں کہ چچا کے بیٹے اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناتے۔ اس بناء پر سائل کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو دوسرے ورثاء کی حق تلفی کا باعث ہو، ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اسے باز پرس ہو۔ (واللہ اعلم)
زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا حکم
سوال: میرے دو بیٹے، تین بیٹیاں اور اہلیہ موجود ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ہی جائیداد تقسیم کر دوں تاکہ
|