ہوگا۔ واللہ اعلم
مقامی مدرسہ کے لیے زکوٰۃ
سوال: ہم نے مسجد میں ایک ادارہ قائم کیا ہے، جس نے مقامی بچوں کے لیے حفظ اور ناظرہ قرآن کی کلاسیں ہوتی ہیں، ادارہ کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے، کیا اس ادارہ کو زکوٰۃ وغیرہ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب: زکوٰۃ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا فریضہ ہے جس کے مصارف خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کر دئیے ہیں، ان مصارف کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ فقیر:… اس سے مراد وہ مسلمان انسان ہے جس کے پا س اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔
٭ مسکین:… اس سے مراد وہ مسلمان انسان ہے جس کے پاس مال تو موجود ہے لیکن وہ اس کی ضروریات کے لیے ناکافی ہو۔
٭ عاملین:… وہ افراد جو مسلمانوں سے زکوٰۃ جمع کر کے، اس کا حساب و کتاب رکھنے پر تعینات ہوں، واضح رہے کہ اس سے مدارس کے سفراء مراد نہیں ہیں۔
٭ مؤلفۃ القلوب:… کسی غیر مسلم کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرنا جس کے اسلام لانے کا قوی امکان ہو اور وہ اسلام کی طرف میلان رکھتا ہو۔
٭ گردن آزاد کرنا:… کسی غلام کو آزادی دلانے کے لیے اس کی مدد کرنا یا کسی مسلمان قیدی کو کفار سے رہائی دلانے کے لیے اس کا مالی تعاون کرنا۔
٭ قرض دار:… ایسا مقروض جس نے اپنی ضروریات کے لیے قرض لیا لیکن تنگ دستی کی وجہ سے ادائیگی پر قادر نہیں، اس سے کاروباری مقروض مراد نہیں ہیں۔
٭ فی سبیل اللہ:… اللہ کے راستے میں خرچ کرنا، اس سے مقصود براہ راست ’’کلمہ اسلام‘‘ کو بلند کرنا ہو۔ حدیث میں اس سے مراد جہاد اور حج کی صراحت ہے۔
٭ ابن السبیل:… مسافر جو دوران سفر اپنی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہو، خواہ وہ اپنے گھر میں امیر ہی کیوں نہ ہو۔
قرآن مجید کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ صرف انہی مصارف پر خرچ کی جا سکتی ہے جیسا کہ آغاز میں کلمہ
|