کے بعد جب ہم صورت مسؤلہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صاحب جائیداد نے کئی طرح سے ناجائز کام کا ارتکاب کیا ہے۔ مثلاً
٭ اس نے اپنی جائیداد کو زندگی میں تقسیم کر دیا ہے جبکہ وہ قطعاً اس کا مجاز نہ تھا، موت کے بعد جو وارث زندہ ہوتے، وہ خود اپنا اپنا حصہ لے لیتے۔
٭ تقسیم کرتے وقت بھی شرعی تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا کیوں کہ دو پوتوں کے نام بقیہ نصف جائیداد کو بیع کی صورت میں انتقال کر دیا ہے جبکہ خرید و فروخت قطعاً مقصود نہ تھی، بلکہ انہیں وارث بنانے کے لیے بطور حیلہ استعمال کیا ہے تاکہ ان پوتوں کو ان کے مرحوم باپ کی جگہ رکھ کر جائیداد سے حصہ دیا جائے۔زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے یتیم پوتوں کے لیے وصیت کر جاتا جو کسی صورت میں 3/1سے زیادہ نہ ہوتی۔ اب بھی اس کی اصلاح بایں صورت ہو سکتی ہے کہ کل جائیداد سے 3/1بطور وصیت دو پوتوں کو اور باقی دو حصے اس کے بیٹے کو دئیے جائیں۔
چنانچہ اس قسم کا ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آیا کہ ایک شخص نے موت کے قریب اپنے کل اثاثے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا جبکہ اس کے علاوہ اور کوئی جائیداد اس کے پاس نہ تھی۔ مرنے کے بعد اس کے ورثاء نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے مرنے والے کے عمل کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آزاد کردہ غلاموں کو بلایا اور انہیں تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کر کے تیسرے حصے یعنی دو غلاموں کو آزاد کر دیا اور باقی چار کو غلامی میں واپس کر کے انہیں ورثاء کے حوالے کر دیا۔‘‘[1]
ہمارے رحجان کے مطابق صورت مسؤلہ میں بھی اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ وصیت کے طور پر مرحوم کی کل جائیداد 3/1 دو پوتوں کو دے دیا جائے اور باقی دو حصے اس کے بیٹے کو دے دئیے جائیں کیوں کہ بیٹے کی زندگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے، تاہم تالیف قلبی کے طور پر انہیں بطور وصیت کچھ دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم!
ترکہ کیا ہے؟
سوال: ہمارے خیال کے مطابق قابل تقسیم ترکہ وہ ہوتا ہے جو باپ دادا سے وراثت کے طور پر حاصل ہو۔ انسان نے جو محنت سے کمایا ہو، اسے ترکہ میں شمار نہیں ہونا چاہیے اس کے متعلق انسان خود مختار ہے جسے چاہے دے دے۔ اس سلسلہ میں ہمارا خیال کہاں تک درست ہے؟
جواب: شرعی اصطلاح میں ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد انسان نے اپنے پیچھے چھوڑا ہو اور کسی دوسرے کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ وہ مال خواہ اسے وراثت میں ملا ہو یا اس نے محنت و ہنر سے کمایا ہو۔
ترکہ کے متعلق درج ذیل امور کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
|