تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی تو اس کی طرف سے ادا ہو جاتا۔‘‘
اس نے عرض کیا جی ہاں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھو۔‘‘[1]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال ہوا کہ میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے رمضان کے روزے باقی تھے، کیا میں اس کی طرف سے رمضان کے روزے رکھ سکتی ہوں؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:
’’نہیں! بلکہ ان کی طرف سے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دو، یہ اس کی طرف سے تمہارے روزے رکھنے سے بہتر ہے۔‘‘[2]
صورت مسؤلہ میں میت کی طرف سے رمضان کے فوت شدہ روزوں کا فدیہ دے دیا جائے اور خود ورثاء کو روزے رکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ واللہ اعلم
طلوع فجر سے پہلے روزہ کی نیت
سوال: ایک آدمی آغاز رمضان کے اعلان سے پہلے سو جاتا ہے اور طلوع فجر کے بعد اسے معلوم ہوا کہ ماہِ رمضان شروع ہو چکا ہے، لیکن وہ رات کے وقت سونے کی وجہ سے روزے کی نیت نہیں کر سکا، اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ روزہ رکھے یا بعد میں اس کی قضا دے؟
جواب: رمضان المبارک کے روزوں کے لیے طلوع فجر سے پہلے رات کے وقت نیت کرنا ضروری ہے، جو شخص رات کے وقت رمضان کے روزے کی نیت نہیں کرتا اور اس کے بغیر ہی روزہ رکھ لیتا ہے، اس کا روزہ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جس نے فجر سے قبل رات کو روزے کی نیت نہیں کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘[3]
واضح رہے کہ نیت کا تعلق دل سے ہے، زبان سے نیت کرنا قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ مختلف کتابچوں اور کیلنڈروں میں روزے کی نیت کے الفاظ شائع کیے جاتے ہیں وہ بے اصل اور بے بنیاد ہیں، البتہ نفلی روزے کی نیت موقع پر بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ رات کے وقت اس کی نیت کر کے سوئے۔
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
’’کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟‘‘
|