’’نکاح نگاہوں کو نیچا رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘[1]
نیز نکاح کرنے سے نصف دین کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو وہ نصف دین مکمل کر لیتا ہے، اب اسے باقی نصف میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔[2]
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متبادل بیویوں کے جو اوصاف بیان کیے ہیں، ان میں اخلاق و کردار کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ وہاں اعلیٰ تعلیم کا دور، دور تک نشان دکھائی نہیں دیتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا﴾[3]
’’اگر پیغمبر تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد ان کا رب انہیں تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا، جو مسلمان، صاحب ایمان، فرمانبردار، توبہ کرنے والی، عبادت گزار اور روزہ رکھنے والی ہوں گی۔‘‘
ان احادیث و آیات کے پیش نظر ہم لڑکیوں کے سرپرست حضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم دلوانے کا بہانہ بنا کر لڑکیوں کی شادی میں تاخیر نہ کریں، تعلیم کا سلسلہ تو ساری عمر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ بوقت نکاح بھی خاوند سے تعلیم مکمل کرنے کی شرط لگائی جا سکتی ہے کہ جب تک وہ بچوں کی مصروفیت میں نہیں پڑتی، سال دو سال تک تعلیمی سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے، نیز ہم اس تاخیر کے نتائج سے بھی آگاہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہیں ایسا شخص پیغام نکاح دے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ا گر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت فساد برپا ہو گا۔‘‘[4]
بہرحال جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کے متعلق دیر نہیں ہونی چاہیے ، اعلیٰ تعلیم کا بہانہ درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
کیا امت کا اختلاف باعث رحمت ہے؟
سوال: برصغیر میں مذہبی اختلافات بہت زیادہ ہیں، اس اختلاف کو تحفظ دینے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔‘‘ کیا واقعی یہ حدیث ہے اور اس سے مذہبی اختلافات کو برقرار رکھا جا سکتا ہے؟
جواب: اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس انحراف کا منبع بغض و عناد ہوتا ہے۔ امت مسلمہ میں جب تک یہ انحراف نہیں آیا، یہ امت اپنے اصل پر قائم رہی اور اختلافات کی نحوست سے بھی اس کا دامن آلودہ نہ ہوا، لیکن
|