کے خشوع اور خضوع میں فرق ضرور آجاتا ہے اس کے علاوہ نمازی کی یہ حرکت دوسرے نمازیوں کی تشویش کا باعث ضرور بنتی ہے، بہرحال ایسی حرکات انتہائی ناپسندیدہ ہیں جو نماز کے خشوع میں خلل انداز ہوں۔ فقہاء ومحدثین نے دوران نماز حرکات کی پانچ اقسام ذکر کی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
حرکت واجب: اس سے مراد ایسی حرکت ہے جس پر نماز کا کوئی فعل واجب موقوف ہو۔ مثلاً ایک نمازی کو دوران نماز یاد آیا کہ اس نے نجاست آلود جرابیں پہن رکھی ہیں تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وہ اپنی جرابیں اتار دے، اس قسم کی حرکت ضروری ہے کیوں کہ نجاست آلود جرابوں میں نماز نہیں ہوتی۔
حرکت مسنون: ایسی حرکت جس پر نماز کا کمال موقوف ہو۔ مثلاً دوران نماز کسی کا وضو ٹوٹ گیا اور وہ وضو بنانے چلا گیا صف میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنے کے لیے حرکت کرنا یہ حرکت مسنون ہے کیوں کہ دوران نماز صف میں خلا پر کرنا مسنون عمل ہے۔
حرکت مکروہ: ایسی حرکت جس کی دوران نماز کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی تکمیل نماز کے ساتھ اس کا کوئی تعلق تھا۔ جیسا کہ سوال میں پوچھا گیا ہے کہ دوران نماز اپنی انگلیوں کے پٹاخے نکالنا، ایسی حرکت انتہائی ناپسندیدہ ہے۔
حرام حرکت: جو بہت زیادہ اور مسلسل ہو۔ مثلاً حالت قیام میں نمازی نے ایسی حرکت شروع کی، پھر اسے رکوع اور سجدہ کی حالت میں بھی برقرار رکھا، ایسا معلوم ہو کہ یہ انسان نماز نہیں پڑھ رہا بلکہ کسی دوسرے کام میں مصروف ہے۔ ایسی حرکت حرام ہے۔
حرکت مباح: مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ جو حرکت ہو۔ مثلاً ضرورت پیش آنے پر نمازی کھجلی کرنے لگے، یا آنکھوں کے آگے آنے والے کپڑے کو دور کر دے، کسی موزی چیز کو مارے کہ جس سے نمازی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو وغیرہ بہرحال نمازی کو چاہیے کہ دوران نماز فضول قسم کی حرکات سے خود کو بچائے رکھے تاکہ اس کی نماز خشوع اور خضوع سے ادا ہو۔ واللہ اعلم
نمازِ عشاء سے پہلے سو جانا
سوال :اگر نماز عشاء نیند کی وجہ سے فوت ہو جائے اور صبح کی نماز کے بعد یاد آئے تو اسے فوراً پڑھ لینا چاہیے یا اسے عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھا جائے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء سے پہلے سونا منع فرمایا ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے قبل سونے کو ناپسند کرتے تھے۔[1]
اگر کوئی شخص نماز عشاء سے پہلے سو جاتا ہے اور صبح سے پہلے بیدار نہیں ہوتا تو جب بھی بیدار ہو وہ نماز پڑھ لے۔ اسے اگلی اس جیسی نماز کے وقت تک مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔ چاہے وہ کراہت کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے رسول
|