جائے گا اور اسے مکمل پردہ کرنا ہو گا۔ جہاں تک بوڑھی عورتوں کے سر کا بوسہ لینا اور ان سے مصافحہ کرنے کی بات ہے تو شریعت میں اس کی قطعاً اجازت نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ہوں۔‘‘[1]
یہ حکم بوڑھی اور غیر بوڑھی تمام عورتوں کو شامل ہے، بشرطیکہ وہ غیر محرم ہوں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں۔‘‘[2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی عمر رسیدہ عورت کے سر کا بوسہ لینا اور اس سے مصافحہ کرنا جائز نہیں۔ البتہ زبانی طور پر احوال پرسی کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ واللہ اعلم!
مصنوعی تنفس سے زندہ رکھنا
سوال: میری والدہ ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے، ایک ماہ سے جدید طبی آلات کے ذریعے اس کے سانس کی آمدورفت کو بحال رکھا جا رہا ہے، لیکن وہ مسلسل بے ہوش ہے، کسی سے بات چیت کرنے کے قابل نہیں، ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: جدید طبی آلات نے جہاں ہمیں علاج معالجہ کی سہولیات مہیا کی ہیں، وہاں ہمیں کئی ایک پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں میں بھی مبتلا کر دیا ہے، اس کی مثال پیش آمدہ سوال ہے۔ ایک طرف جدید طبی آلات کے ذریعے دل کی دھڑکن اور سانس کی آمدورفت کو برقرار رکھا جاتا ہے اگرچہ وہ ذہنی طور پر مر چکاہوتا ہے۔ دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ جدید طب مریض کو طویل مدت تک ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھنا چاہتی اور اسے باوقار طور پر مرنے کا حق دیتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مریض کو ادویات یا کسی ٹیکے کے ذریعے ختم کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں ہر قسم کا قتل منع ہے، ہاں چند جرائم ایسے ہیں جن کی وجہ سے اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص طویل بیماری کی وجہ سے خود کو ختم کرنا چاہتا ہے ہم اس پر رحم کر کے قتل کر دیتے ہیں تو ایسا کرنا اسلام کی نظر میں خود کشی اور قتل ہے جس کے نتائج دنیا اور آخرت میں بہت ہی بھیانک ہیں۔
صورت مسؤلہ کے متعلق ہمارا رحجان یہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات کو مریض کی زندگی بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں جدید طبی آلات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور معاون حیات مشینی آلات بھی سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر صحت کی بحالی یقینی ہو یا کم از کم اس کی توقع اور امید ہو تو سانس کی آمدورفت کو بذریعہ جدید آلات قائم رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جس شخص کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور اسے ہوش میں لانا ممکن نہیں تو ایسے مریض کو محض سانس کی آمدورفت کے ذریعے ’’زندہ‘‘ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس صورت میں مریض کی دھڑکن ہی قائم رہتی ہے اور بحالی صحت کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسا مریض حقیقت میں مر چکا ہوتا ہے، صرف فنی طور پر مصنوعی تنفس کے ذریعے اسے ’’زندہ‘‘ رکھا جا رہا ہے، اس کا کوئی
|