اسی طرح کم از کم مقدار کی کوئی حد نہیں، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کا ولیمہ دو مد جو سے کیا تھا۔[1]
دو مد وزن ہمارے اعشاری نظام کے مطابق ایک کلو پچاس گرام ہے۔
اس کے آداب میں سے ہے کہ دعوت ولیمہ قبول کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جب تم میں سے کسی کو دعوت ولیمہ دی جائے تو وہ اس میں ضرور شرکت کرے۔‘‘[2]
لیکن کھانا ضروری نہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ اگر چاہے تو کھا لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔[3]
تاہم اس موقع پر کوئی برائی، بے پردگی یا اختلاط مردو زن کا اندیشہ ہے تو اگر روکنے کی طاقت ہے تو شرکت کرے، بصورت دیگر اجتناب کیا جائے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’تم ایسے کھانے میں شرکت نہ کرو جہاں شراب پیش کی جاتی ہو۔‘‘[4]
دیگر تمام گناہوں کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
سوتیلی والدہ کی بیٹی سے شادی کرنا
سوال: میرے والد نے ایک عورت سے شادی کی ہے، اس کی پہلے خاوند سے ایک بیٹی ہے جو اس کے ہمراہ ہے، کیا میں اس سے شادی کر سکتا ہوں، مجھے اس میں کچھ تردد ہے، کیوں کہ وہ میرے والد کی بیوی کی بیٹی ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟
جواب: سوتیلی والدہ کی پہلے خاوند سے بیٹی وہ آپ کے والد کی ربیبہ کہلائے گی، جب آپ کے والد نے اس کی والدہ سے نکاح کر لیا اور اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم ہو گئے تو وہ لڑکی صرف والد پر حرام ہو گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ ﴾[5]
’’تمہاری پرورش کردہ لڑکیاں (بھی حرام ہیں) جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں کی جن سے تم دخول کر چکے ہو۔ ہاں اگر تم نے (نکاح کے بعد) ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر (ان لڑکیوں سے نکاح کرنا) گناہ نہیں۔‘‘
|