واجبات و حقوق
حقوق اللہ اور حقوق العباد
سوال: واعظین اکثر بیان کرتے ہیں کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے جب تک اسے صاحب حق معاف نہ کرے اور حقوق اللہ، اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں، اب سوال یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعیین کس طرح کی جائے گی؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے اسے شرعی احکام کو بجا لانے کا مکلف ٹھہرایا ہے، ان شرعی احکام کی بجا آوری سے مقصود اگر معاشرہ کی عام مصلحت ہے تو ایسے شرعی احکام کو حقوق اللہ اور اگر کوئی خاص مصلحت ہے تو ایسے احکام کو حقوق العباد کا نام دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ ایک شرعی حکم میں اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کا حق جمع ہو جاتا ہے لیکن اس میں اللہ کا حق غالب ہوگا جب کہ اس کے برعکس کسی حکم میں بندے کے حق کو غلبہ ہوتا ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
حقوق اللہ:… وہ حق جس کا تعلق عام منفعت سے ہو اور کسی کے ساتھ مخصوص نہ ہو، اسے معاشرے کا حق بھی کہا جاتا ہے، اس کی اہمیت اور عمومی نفع کے پیش نظر اسے تمام لوگوں کے پروردگار کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اس قسم کے حق کو کوئی انسان ساقط نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے چھوڑنے یا اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی اجازت ہے۔ مندرجہ ذیل چیزیں حقوق اللہ میں شامل ہیں:
٭ خالص عبادات: ان سے مراد وہ افعال ہیں جن سے مقصود رضا الٰہی، معاشرہ کا قیام اور اس کی اصلاح کے لیے انتظام و انصرام ہے۔ جیسے ایمان ، زکوٰۃ ، روزہ، حج اور جہاد وغیرہ۔ ان عبادات سے مقصود ایسی مصلحتوں کا حصول ہے جن کا نفع معاشرہ کی طرف لوٹتا ہے۔
٭ ایسی عبادات جن کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ دوسرے انسانوں کی کفالت کا بوجھ بھی شامل ہوتا ہے، جیسے صدقۂ فطر۔ اسے ادا کرنے والا محتاج پر خرچ کرنے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ یعنی یہ عبادت کسی دوسرے محتاج کی وجہ سے اس پر فرض ہے جب کہ عبادات خالصہ میں ایسا نہیں ہوتا۔
٭ قابل عشر زمینوں کی پیداوار سے مخصوص حصہ ادا کرنا، اس میں عبادات کا پہلو بھی ہے کہ زمین کی پیداوار سے دسواں یا بیسواں حصہ بطور زکوٰۃ وصول کیا جاتا ہے اور معاشرے میں غرباء پر تقسیم کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا
|