طرف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’باہم محبت کرنے والے مرد و عورت کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچی اور بچے کے ذاتی رحجانات اور میلانات کا خیال رکھنا چاہیے، نکاح کے سلسلہ میں ان پر کوئی رشتہ ٹھونسا نہ جائے، اس سلسلہ میں برادری اور مال و دولت کو قطعاً معیار نہ بنایا جائے۔
لینز کا استعمال
سوال: آج کل بازار میں مختلف رنگوں کے لینز دستیاب ہیں، جو نظر اور بینائی کے علاوہ استعمال ہوتے ہیں، خصوصاً خواتین اپنے کپڑوں کے ساتھ ملتے جلتے لینز استعمال کرتی ہیں، اس کے متعلق شرعی حکم کی وضاحت کریں۔
جواب: لینز دور حاضر کی بہت مفید ایجاد ہے، اور اسے دو طرح سے استعمال کیا جاتا ہے:
٭ نظرا ور بینائی کے لیے پہلے عینک استعمال ہوتی تھی، اب اسی نمبر کے لینز مل جاتے ہیں۔ انہیں آنکھ کے اندرونی حصے کے ساتھ چپکا لیا جاتا ہے۔ اس طرح عینک کا متبادل ہے، اس مقصد کے لیے لینز استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ ایسا کرنا ایک ضرورت ہے اور اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔
٭ لینز کو بطور فیشن بھی استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر خواتین تقریبات کے موقع پر اپنے سوٹ کے ساتھ رنگت کے اعتبار سے ملتے جلتے لینز استعمال کرتی ہیں۔ اس کے متعلق ہمارا رحجان یہ ہے کہ نظر کی ضرورت کے بغیر بھی انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر گراں قیمت ہیں تو ان کے استعمال سے گریز کرنا بہتر ہے کیوں کہ یہ اسراف ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں نیز اس میں تدلیس اور دھوکہ دہی بھی ہے کیوں کہ آنکھ کو اس کے مظہر حقیقی کے علاوہ ظاہر کیا جاتا ہے، عرب کے مایہ ناز عالم دین شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کے استعمال کے لیے کسی ماہر امراض چشم سے مشورہ کیا جائے، اگر نظر پر اثر انداز ہوتے ہوں تو ایسے لینز استعمال نہیں کرنے چاہیئیں کیوں کہ جو چیز بدن کو نقصان دیتی ہے اس کا استعمال درست نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ﴾[2]
’’تم خود کو ہلاک نہ کرو۔‘‘
اگر کوئی ماہر ڈاکٹر اس کے متعلق کہتا ہے کہ اس کے استعمال سے نظر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تو پھر بھی غور کیا جائے کہ ان کے استعمال سے آنکھیں چوپایوں جیسی تو نظر نہیں آتیں مثلاً خرگوش یا بلی کی آنکھوں جیسی نظر آئیں تو بھی ان کے استعمال سے گریز کیا جائے کیوں کہ ایسا کرنے سے حیوانات سے مشابہت ہوتی ہے جسے قرآن نے بطور مذمت بیان کیا ہے۔ یہ بہت بری
|