پر والد کو باز پرس نہ ہو، لیکن جائیداد سے محروم کرنے کی سزا دینا شرعاً جائز نہیں۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقہ کار اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے اس میں کسی کو ترمیم و اضافے کا حق نہیں۔ جو حضرات قانون وراثت کو پامال کر کے آئے دن اخبارات میں اپنی اولاد میں سے کسی کے متعلق عاق نامہ کے اشتہارات دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے خوفناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ قانون وراثت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ يَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْهَا وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ﴾[1]
’’اور جو اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا، اسے اللہ آگ میں ڈالے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔‘‘
اس آیت کے پیش نظر کسی باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنی جائیداد سے محروم کرے، اللہ کے قانون سے اس کی بغاوت کرے۔ وراثت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا﴾[2]
’’مردوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو والدین اور رشتے داروں نے چھوڑا ہے اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں سے حصہ ہے، جو ماں، باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں ہر ایک کا حصہ مقرر ہے۔‘‘
اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلا عذر شرعی وراثت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔بہرحال بیٹے کا کردار بہت ہی قابل ملامت اور ظلم و ستم پر مبنی ہے، قیامت کے دن اس کے متعلق بہت سخت بازپرس ہو گی۔
صاحب اولاد بیٹی کا حصہ
سوال: میرے والد فوت ہوئے، اس وقت ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا موجود تھا، ایک بیٹی شادی شدہ تھی، اس کا خاوند اور ایک بیٹا موجود ہے۔ بیٹی والد کی وفات کے بعد فوت ہوئی، کیا والد کی جائیداد سے اسے حصہ ملے گا؟ اگر ملے گا تو وہ کیسے دیا جائے گا؟
جواب: مرنے والے کی جائیداد سے حصہ لینے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وارث، متوفی کی وفات کے وقت زندہ ہو، اس سے پہلے فوت ہونے والے رشتہ داروں کو حصہ نہیں ملتا ، صورت مسؤلہ میں جب بزرگ فوت ہوئے ہیں تو اس وقت ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا موجود تھا، دو بیٹیوں میں سے ایک شادی شدہ تھی، جس کا خاوند اور بیٹا زندہ ہے اور وہ خود باپ کی وفات کے بعد فوت ہو چکی ہیں، اس لیے باپ کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے چار حصے کیے جائیں گے۔ ان میں سے دو حصے بیٹے کو اور
|