صورت مسؤلہ میں جب سائل نے کسی چیز کو خریدا پھر گڈز کمپنی کے ذریعے اس پر قبضہ کیا، کیوں کہ یہ کمپنی ایک نمائندہ کی حیثیت رکھتی ہے اور خریدار اسے کرایہ ادا کرتا ہے، راستے کا رسک اپنے ذمے لیتا ہے۔ گڈز کمپنی کا قبضہ خریدار کا قبضہ ہے۔ اس لیے فروخت کنندہ سے مال اٹھا نے اور ٹرک پر لوڈ کرنے کے بعد اسے فروخت کرنا جائز ہے، وہ اسے آگے فروخت کر کے دوسرے خریدار کے گودام میں اتار کر نفع حاصل کر سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم!
رشوت خور کی دعوت قبول کرنا
سوال: میرا ایک عزیز سرکاری عہدہ پر فائز ہے اور وہ اس عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے رشوت لیتا ہے۔ وہ بعض اوقات میری دعوت کرتا ہے، کیا اس کے گھر سے کھانا پینا اور اس کی دعوت قبول کرنا جائز ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب: آج ہم فتن دور سے گزر رہے ہیں، ہر طرف حرام کاری اور حرام خوری کا چرچا ہے، ایسے حالات میں ہمیں چاہیے کہ حکمت عملی کو بروئے کار لائیں اور معاشرے میں رہتے ہوئے غلط کار لوگوں کی اصلاح کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے تو زبان سے منع کرے۔ اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو پھر اپنے دل سے نفرت کرے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘[1]
صورت مسؤلہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ صبر و استقامت سے کام لے اور ادب و احترام کے ساتھ اچھے طریقے سے اپنے عزیز کو وعظ و نصیحت کرتا رہے۔ قطع تعلقی سے مکمل اجتناب کیا جائے، اگر اسے یقین ہے کہ اس نے خالص رشوت کی رقم سے دعوت کی ہے تو اس کی دعوت کو رد کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، جب آپ کو معلوم ہوا کہ دعوت میں تیار کردہ گوشت چوری کا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تناول نہیں کیا بلکہ قیدیوں کو کھلا دینے کا حکم دیا۔[2]
اگر دعوت کے متعلق خالص حرام کا یقین نہ ہو تو محض شبہ کی بنیاد پر دعوت کو مسترد کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تھا: ’’میرا ایک پڑوسی ہے جس کا مال میرے خیال میں خبیث یا حرام ہے اور وہ مجھے کبھی کبھار کھانے کی دعوت دے دیتا ہے، اگر میں اس کی دعوت قبول نہ کروں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے، ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اس کی دعوت کو قبول کرو، اس کا گناہ اس پر ہوگا۔‘‘[3]
اس سے معلوم ہو کہ ایسی دعوت قبول کی جا سکتی ہے جس کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو۔ اگر ایسے شخص کے متعلق امکان ہو کہ دعوت قبول نہ کرنے کا ہتھیار کارگر ثابت ہوگا اور وہ توبہ کر کے اس جرم سے باز آ جائے گا تو ایسے حالات میں تادیباً اس کی دعوت رد کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم!
٭٭٭
|