اصلاح تھا لیکن جس طرح مسلمان دوسرے شعبوں میں انحطاط کا شکار ہوئے اور ان میں بدعات کی آمیزش ہوئی، اسی طرح یہ سلاسل اربعہ بھی ان سے محفوظ نہیں رہے۔ بہرحال ہمارے پاس قرآن وسنت موجود ہے اس میں تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کے لیے بہت کچھ ہے، اسی پر اکتفاء کیا جائے۔
شیطان کی حقیقت
سوال:کیا شیطان اپنا مستقل وجود رکھتا ہے جو انسان کو بہکاتا اور پھسلاتا ہے؟ یا ایک تخیلاتی قوت ہے جو انسان کے سوچ و بچار پر غالب آجاتی ہے اور انسان کو غلط کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے؟ قرآن و احادیث سے وضاحت فرمادیں۔
جواب: قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان محض تخیلاتی قوت کا نام نہیں بلکہ وہ جنوں میں سے ہے اور اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَكَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّه﴾[1]
’’اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، یہ جنوں میں سے تھا اور اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی۔‘‘
قرآن کریم نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ وہ آدم اور اولاد آدم کا دشمن ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا اِنَّمَا يَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾[2]
’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اس لیے بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں۔‘‘
اور وہ مختلف خیالات، ترغیبات اور وساوس کے ذریعے اولاد آدم کو بہکانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے، اسے ہمارے جسم پر قبضہ کر کے ہم سے زبردستی کوئی برا کام کرا لینے کے اختیارات نہیں دیے گئے۔ اسے صرف ہمارے نفس کو گناہ پر اکسانے اور برے کاموں کی طرف مائل کرنے یا وساوس و شبہات ڈالنے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ﴾[3]
’’وہ شیطان لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔‘‘
بلکہ اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں صرف دعوت پیش کر سکتا ہوں جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی بات نقل کی ہے:
﴿وَ مَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيْ﴾[4]
|