٭ ان جانوروں کو ٹرکوں کے ذریعے لایا جاتا ہے، اس سے ٹرکوں والوں کو آمدنی ہوتی ہے ان کا سلسلہ معاش چلتا ہے۔
٭ انہیں شہری لوگ خریدتے ہیں اور دس دس، بیس بیس دن انہیں چارہ کھلاتے ہیں۔ چارے والے سینکڑوں افراد کا رزق اس سے وابستہ ہے۔
٭ قصاب انہیں ذبح کر کے روزی کماتے ہیں اور مزدوری حاصل کر کے وہ کئی کئی مہینوں کا رزق اپنے اہل خانہ کے لیے جمع کر لیتے ہیں۔
٭ قربانیوں کے گوشت کو محفوظ کر کے غریب ممالک کو بھیجا جاتا ہے، سعودی عرب میں ایسا ہی ہوتا ہے پھر پوری دنیا اس گوشت سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
٭ ان کا چمڑا کس قدر بابرکت ہے جو غرباء و مساکین کے لیے وقف ہوتا ہے، غرباء و مساکین اسے فروخت کر کے اپنی ضروریات زندگی خریدتے ہیں۔
٭ ان چرمہائے قربانی سے دینی اداروں کی بھی سرپرستی ہوتی ہے، وہ ان کے ذریعے سال بھر کی ضروریات زندگی خریدتے ہیں۔
٭ جو لوگ کھالیں خریدتے ہیں وہ انہیں ان فیکٹریوں کو بیچتے ہیں، جہاں چمڑے کی مصنوعات تیار ہوتی ہیں، وہاں پہننے کے لے موزے، جیکٹیں، بیگ، پرس اور جوتے وغیرہ تیار ہوتے ہیں، پھر یہ مصنوعات بازار میں آ جاتی ہیں، الغرض سینکڑوں لوگوں کا کاروبار اس سے وابستہ ہوتا ہے۔
قربانی پر اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور کریں۔ محض اعتراض برائے اعتراض کی روش کر کے ہٹ دھرمی سے باز آجائیں۔ واللہ اعلم!
قربانی کے بجائے جانور کی قیمت صدقہ کرنا
سوال: آج کل کچھ لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمان ایک دن میں ہزاروں جانور ضائع کر دیتے ہیں، ان کی بجائے ان جانوروں کی قیمت اگر فقراء اور مساکین میں خرچ کر دی جائے تو اس سے غربت ختم ہو سکتی ہے۔ اس اعتراض کا شافی جواب درکار ہے۔
جواب: سوال میں مذکور اعتراض دراصل ایسے لوگوں کی طرف سے ہے، جو مغربیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب ہو کر اس کے دلدادہ ہیں، ان کے اعتراضات کئی طرح کے ہوتے ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭ قربانی صرف مکہ مکرمہ میں حجاج کرام ہوتے ہیں، دیگر مقامات پر قربانی کا حکم نہیں ہے۔
٭ جتنی رقم قربانیوں پرخرچ کی جاتی ہے، اتنی رقم رفاہی منصوبوں پر لگائی جائے۔
|