دوسرے کو سجدہ کرنا جائزہوتا تو میں عورت کو کہتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘[1]
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کے حقوق کے سلسلہ میں فرمایا ہے: ’’بیوی اپنے رب تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی نہیں کر سکتی تا آنکہ وہ اپنے خاوند کے حقوق کی ادائیگی کرے۔‘‘[2]
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس عورت کی طر ف نظر رحمت سے نہیں دیکھتے جو اپنے خاوند کی ناپاس گزار ہوتی ہے۔‘‘[3]
عبادات میں حلاوت و لذت تو بہت دور کی بات ہے، خاوند کی نافرمان اور سرکش بیوی کی نماز اُس کے سر سے اوپر نہیں چڑھتی۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’دو آدمیوں کی نماز ان کے سر سے اوپر نہیں چڑھتی: ایک وہ غلام جو آقا سے بھاگا ہو تاآنکہ وہ لوٹ آئے۔ دوسری وہ عورت جس کا خاوند ناراض ہو تا آنکہ وہ راضی ہو جائے۔‘‘[4]
بیگمات اگر عبادات میں لذت کی طالب ہیں تو انہیں شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے خاوندوں کی اطاعت کرنا ہو گی۔
قسم اور اس کا کفارہ
سوال: میں نے اپنی بیوی سے جھگڑتے ہوئے قسم اٹھائی کہ آئندہ میں تیرے ساتھ کبھی اچھا برتاؤ نہیں کروں گا۔ اب مجھے احساس ہوا ہے کہ میں نے غلط کام کیا ہے، اس کی تلافی کیونکر ہو سکتی ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں میری اس الجھن کو حل کریں۔
جواب: قرآن کریم نے اس انداز سے قسم اٹھانے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَيْمَانِكُمْاَنْ تَبَرُّوْا ﴾[5]
’’اپنی قسموں کے لیے اللہ تعالیٰ کے نام کو ایسی ڈھال نہ بناؤ کہ تم فلاں نیکی کا کام نہیں کرو گے۔‘‘
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اچھا کام نہ کرنے کی قسم اٹھا کر اللہ کے نام کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی برائی کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کا نام استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی قسم توڑ ڈالے اور اس کا کفارہ ادا کرے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ اگر تو کسی بات پر قسم اٹھائے پھر اس کے خلاف کرنا بہتر خیال کرے تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو اور اس کام کو کر گزرو جسے تم بہتر خیال کرتے ہو۔[6]
قسم توڑنے کے بعد اس کے کفارے کی تفصیل قرآن مجید میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|