مسجد میں محفل حمد و نعت
سوال: کچھ لوگ مسجد میں محفل حمد و نعت کا پروگرام کرتے ہیں، کیا مسجد میں شعر پڑھنے کی اجازت ہے؟ جبکہ مساجد تو عبادت کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں، اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں، کہ ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ مساجد اللہ کے ذکر اورنماز کی ادائیگی کے لیے بنائی جاتی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مساجد تو اللہ کے ذکر اور نماز کے لیے تعمیر کی گئی ہیں۔‘‘[1]
لیکن کچھ ثانوی مقاصد ہیں جن کے لیے مساجد کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ سید الفقہاء امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں چند ایک مقاصد کی نشاندہی بھی کی ہے، ان میں سے ایک درج ذیل ہے: ’’مسجد میں شعر پڑھنا۔‘‘[2]
لیکن یہ اجازت ہر قسم کے اشعار پڑھنے سے متعلق نہیں بلکہ ایسے اشعار کے لیے ہے جو اسلام اور اہل اسلام کے دفاع پر مشتمل ہوں یا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و صورت کوان میں بیان کیا گیا ہو۔
جیسا کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اسلام کی خوبیاں اور مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دینے کے لیے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اشعار پڑھتے تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’اے حسان! میری طرف سے ان مشرکین کو جواب دو، اللہ تعالیٰ تمہاری روح القدس سے مدد فرمائے۔‘‘[3]
چنانچہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں اپنا کلام پیش کرتے، بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لیے خود منبر رکھواتے، جس پر وہ کھڑے ہو کر مشرکین کہ ہجو کرتے تھے۔[4]
بلکہ ایک دن سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں اشعار پڑ ھ رہے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، آپ نے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کو گھور کر دیکھا اور ناگواری کا اظہار کیا، سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا کہ ’’میں تو مسجد نبوی میں آپ سے زیادہ مرتبے والی شخصیت (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی موجودگی میں شعر پڑھا کرتا تھا۔‘‘ پھر آپ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف التفات کر کے ان سے شہادت طلب کی تو انہوں نے بھی آپ کی تائید کی۔[5]
ممکن ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے وہ حدیث ہو جس میں مسجدوں میں شعر پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کہ ایک حدیث میں اس حکم امتناعی کی صراحت ہے۔[6]
|