خواب دیکھا کہ میر ا سر کچل دیا گیا ہے اور میں اس کے پیچھے بھاگ رہا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواب سن کر فرمایا: ’’خواب میں اپنے ساتھ شیطان کے کھیلنے کی کسی کو خبر نہ دے۔‘‘[1]
اس طرح کا پریشان کن خواب دیکھنے والے کو درج ذیل کام کرنے چاہئیں۔
۱۔ تین دفعہ بائیں طرف تھو تھو کرے اور اس قسم کے خواب سے اللہ کی پناہ مانگے۔
۲۔ جس پہلو پر لیٹا ہے وہ پہلو بدل لیا جائے۔
۳۔ اگر ممکن ہو تو اس وقت وضو کر کے نماز شروع کر دے۔ نیز انسان کو چاہیے کہ سوتے وقت وضو کر کے آخری تین سورتیں پڑھ کر خود پر دم کر کے سوئے، امید ہے کہ ایسا کرنے سے برے خواب نہیں آئیں گے۔ (واللہ اعلم)
لے پالک بیٹے کی نسبت
سوال: میرے ایک دوست کی شادی کافی عرصہ سے ہوئی ہے، اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنے سالے کا بیٹا بوقت پیدائش ہی لے لیا اور اس بچے کی ولدیت کی جگہ اپنا نام لکھوا دیا۔ گزشتہ سال اس بیٹے کی شادی کی تو اصل ولدیت کے بجائے اپنا نام ہی لکھوایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل میں وہی بیٹا اس دوست کی جائیداد کا وارث قرار پائے گا، کیا شریعت متبنیٰ بیٹے کو حقیقی بیٹا ظاہر کرنے کی اجازت دیتی ہے؟
جواب: دین اسلام میں قدرتی طور پر جو رشتہ اور نسب قائم ہوتا ہے اس کی بہت اہمیت ہے، اس کے مقابلہ میں مصنوعی اور بناوٹی رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ دور جاہلیت میں لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا خیال کیا جاتا تھا، ابتدائے اسلام میں یہی طریقہ رائج تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور لوگ انہیں زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے، قرآن کریم نے اس امر کی اصلاح کرتے ہوئے درج ذیل آیت نازل فرمائی:
﴿اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ١ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ مَوَالِيْكُمْ ﴾[2]
’’لے پالکوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ،ا للہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔ اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔‘‘
اس آیت کا واضح مطلب یہ ہے کہ کسی بھی لے پالک بیٹے کو حقیقی بیٹے کا مقام دینا اور حقیقی بیٹا ظاہر کرنا شرعاً جائز نہیں، بلکہ اسے اپنے اصلی باپ کی طر ف منسوب کرنا چاہیے۔
صورت مسؤلہ میں سائل کے دوست نے غلط کام کیاہے کہ اپنے سالے کے بیٹے کو اپنی طر ف منسوب کیا ہے اور اس کی ولدیت کی جگہ اپنا نام لکھوایا ہے پھر شادی کے موقع پر بھی ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ شریعت میں اگر کوئی اپنے اصل باپ کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے، تو اس پر بہت سخت وعید ہے۔
|