وظیفہ ملتا رہے۔ بعض ایسے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں کہ اس طرح کا نکاح کرنے والے ایک دوسرے سے بالکل نا آشنا ہوتے ہیں اور انہوں نے نکاح کے بعد ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوتا، محض کاغذی کاروائی کی ہوتی ہے جو انٹرنیٹ پر مکمل کر لی جاتی ہے۔ نکاح کرنے والے کا مقصد گرین کارڈ کا حصول اور عورت کا مقصد صرف ماہانہ وظیفہ حاصل کرنا ہے، حسن معاشرت یا خاندان کی بنیاد کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔
لہٰذا ہمارے رحجان کے مطابق اس طرح کا دھندا شرعاً ناجائز ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ذاتی مفاد کے لیے نکاح کرنا
سوال: میں بیرون ممالک زیر تعلیم ہوں، میں نے شادی الاؤنس کے لیے ایک لڑکی سے نکاح کیا ہے لیکن میری نیت شادی کی نہیں تھی، میں نے یہ نکاح گواہوں کی موجودگی، لڑکی کے والدین اور اپنے والدین کی رضامندی سے کیا ہے، اس قسم کے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: جب نکاح کے تمام ارکان اور شرائط پائی جائیں اور ایجاب و قبول ہو جائے تو نکاح واجب ہو جاتا ہے خواہ نکاح کرنے والے کی نیت ذاتی مفادات کا حصول ہی کیوں نہ ہو، اس قسم کی نیت کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکی حضرات اس قسم کے نکاح کو صحیح قرار دیتے ہیں خواہ ہنسی و مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔
ان حضرات کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تین باتیں ایسی ہیں جنہیں اگر سنجیدگی سے کیا جائے تو بھی پختہ ہیں، اور اگر مذاق میں کیا جائے تو بھی پختہ ہیں: ایک نکاح، دوسری طلاق اور تیسرا رجوع۔‘‘ [1]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ تینوں کام حقیقی طور پر سنجیدگی سے کیے جائیں تو حقیقت پر مبنی ہوں گے اور اگر بطور مذاق کیے جائیں تو بھی حقیقت ہی ہوں گے۔ ہمارے رحجان کے مطابق سوال میں مذکورہ نکاح حقیقت پر مبنی ہے اور اسے واجب قرار دیا جائے گا، اگرچہ نکاح کرنے والے کی نیت ذاتی مفادات کا حصول تھا۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’عام علماء کے ہاں مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق بھی واقع ہو جائے گی اور اسی طرح اس کا نکاح بھی صحیح ہے کہ مرفوع حدیث کے متن میں بھی اس کا ذکر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کا مؤقف بھی یہی ہے اور مشہور اہل علم نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے۔[2]
طلاق او رخلع میں فرق
سوال: بعض دفعہ عدالت، عورت کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کر دیتی ہے جبکہ خاوند نے اسے طلاق نہیں دی ہوتی، اس خلع اور طلاق میں فرق واضح کریں، کیا خلع کی صورت میں خاوند کا طلاق دینا ضروری نہیں؟
|