رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’شفا تین چیزوں سے ہے: سینگی کے نشتر، شہد نوش کرنے اور آگ سے داغ دینے میں، لیکن اپنی امت کو آگ کے ذریعے داغنے سے منع کرتا ہوں۔‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سینگی کے ذریعے علاج کرنا بہت مفید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس کے ذریعے علاج کرایا چنانچہ آپ نے درد سر کی وجہ سے ایک موقع پر سینگی لگوائی جبکہ آپ احرام کی حالت میں تھے۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درد شقیقہ کی وجہ سے ’’لحی جمل‘‘ نامی ایک چشمے پر اپنے سر میں سینگی لگوائی جبکہ آپ حالت احرام میں تھے۔[2]
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سینگی لگوا کر علاج کرانا مفید اور مسنون ہے۔ لیکن معالج سمجھ دار اور تجربہ کار ہونا چاہیے جو یہ جانتا ہو کہ کس مرض کے لیے جسم کے کس حصے پر سینگی لگانی چاہیے۔ غلط جگہ پر یا نہ جاننے والے سے سینگی لگوانا نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ حضرت معمر فرماتے ہیں: ’’میں نے سینگی لگوا لی تو میرا حافظہ جاتا رہا، حتی کہ مجھے دوران نماز فاتحہ پڑھتے وقت بھی لقمہ دیا جاتا تھا، انہوں نے اپنی کھوپڑی پر سینگی لگوائی تھی۔‘‘[3]
دراصل جسم کے کسی حصہ میں خون کا دباؤ بڑھ جانے یا اس میں جوش آ جانے کی صورت میں جلد کو نشتر کے ساتھ گود کر خاص اندا ز سے گندا خون نکال دیا جاتا ہے، عربوں کے ہاں یہ طریقہ علاج معروف تھا، اب مغربی ہسپتالوں میں اس سے استفادہ کیا جا رہا ہے، ہمارے ہاں بھی یہ طریقہ علاج رائج ہے، اس سے استفادہ کرنا چاہیے، یہ مفید اور مسنون ہے لیکن اس کے لیے کسی ماہر فن کا انتخاب کیا جائے۔
مردہ مچھر اور مکھی کا حکم
سوال: اگر دودھ یا پانی میں مکھی یا مچھر گر کر مرجائے تو اس کا کیا حکم ہے، جبکہ قرآن کریم نے مردار کو حرام قرار دیا ہے، اس کی قرآن و حدیث کی رو سے وضاحت کر دیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر دے۔
جواب: بلاشبہ قرآن کریم کی نص کے مطابق مردار حرام ہے اور مردار نجس ہوتا ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار کے چمڑے کو پاک کرنے کا طریقہ بتایا ہے کہ اسے رنگا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے دباغت نہ دی جائے تو وہ نجس ہے۔ اس پر علماء امت کا اجماع ہے لیکن مردار کے نجس ہونے سے وہ مردار مستثنیٰ ہے جس میں بہنے والا خون نہ ہو جیسے مکھی، کیڑے مکوڑے، چیونٹی اور مچھر وغیرہ۔ ان میں اتنا خون نہیں ہوتا جو زمین پر بہنے لگے۔
|