کے پاس آئیں، جب رات دیر ہو گئی تو آپ انہیں راستے پر لگانے کے لیے باہر نکلے، اس دوران آپ کے دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو دیکھا تو وضاحت فرمائی کہ یہ میری بیوی صفیہ ہے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ وضاحت گراں گزری تو آپ نے فرمایا: ’’شیطان، انسان کے رگ و ریشے میں خون کی طرح سرایت کر جاتا ہے مجھے اندیشہ ہوا کہ تمہارے دلوں میں کوئی ایسی بات نہ ڈال دے جو تمہارے لیے اچھی نہ ہو۔‘‘[1]
اس حدیث کے پیش نظر ہمیں ہرکام سے گریز کرنا چاہیے جس میں شکوک و شبہات کا اندیشہ ہو، اگر چہ مذکورہ شرائط کے ساتھ جواز کا پہلو موجود ہے۔ (واللہ اعلم)
عورتوں سے اختلاط
سوال: ہمارے ہاں بازاروں میں عورتیں عریاں یا نیم عریاں لباس پہن کر آتی ہیں، کیا ایسے حالات میں ایک مسلمان آدمی وہاں جا سکتا ہے، جہاں اختلاط مرد و زن کا پورا پورا امکان ہوتا ہے؟
جواب: جس مقام پر مرد و زن کا اختلاط ہو یا اس کا امکان ہو تو ایک دیندار آدمی کو وہاں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدٰنِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَآءُ وَ اَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ﴾[2]
’’جب موسیٰ علیہ السلام مدین کے چشمے پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں جانوروں کو پانی پلا رہی ہیں اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے جانوروں کو روکے ہوئے دکھائی دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ تمہارا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے بتایا جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں، ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔‘‘
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورتیں، اختلاط مرد و زن سے کس قدر گریز کرتی تھیں، انہوں نے مردوں میں گھس کر پانی پلانے کی قطعا ً کوشش نہیں کی۔
ہاں درج ذیل شرائط کے ساتھ ایسے بازار میں جانا جائز ہے:
٭ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، اس جذبہ سے وہاں جائے۔
٭ جاتے وقت اپنی نظروں کو جھکائے رکھے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
٭ فتنہ اور اس کے اسباب و ذرائع سے خود کو بچائے رکھے۔
٭ اپنے دین اور عزت و ناموس کی حفاظت کا پورا پورا اہتمام کرے۔
|