تھا کہ فروخت کنندہ واپس آ گیا تو قیمت اسے دے دوں گا بصورت دیگر اسے اس کا اجر ملتا رہے گا۔
پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے قیدی کے متعلق امام زہری رحمہ اللہ کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ اگر قیدی کا پتہ معلوم ہو تو اس کی بیوی کو نکاح کرنے کی اجازت نہیں، بصورت دیگر وہ ایک سال انتظاکر نے کے بعد آگے نکاح کر سکتی ہے۔ ان آثار کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے یزید مولیٰ منبعث رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث ذکر کی ہے کہ گری ہوئی چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کا اعلان کرے۔‘‘[1]
ان آثار اور مرفوع حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس مسئلہ میں اس قسم کی مظلومہ کو امام مالک رحمہ اللہ سے بھی زیادہ رعایت دینا چاہتے ہیں کہ مفقود الخبر خاوند کی بیوی ایک سال انتظار کرنے کے بعد عدت وفات گزار کر عقد ثانی کر سکتی ہے۔ دور حاضر میں میڈیا کی برق رفتاری کے پیش نظرمظلومہ کے ساتھ ا س سے بھی زیادہ رعایت ہو سکتی ہے کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا﴾[2]
’’ان عورتون کو تکلیف دینے کے لیے مت روکے رکھو تاکہ تم ان پر زیادتی کرو۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾
’’تم ان عورتوں کے ساتھ معروف طریقہ کے مطابق زندگی بسر کرو۔‘‘ [3]
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مفقود الخبر خاوند کی بیوی عدالت کی طرف رجوع کرے، عدالت اس خاوند کے متعلق تحقیق و تفتیش کرے گی اور پھر اس کی وفات کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گی، اس کے بعد عدت وفات گزار کر عقد ثانی کرنے کی مجاز ہو گی۔ عدالتی چارہ جوئی کے بغیر عورت کا کوئی بھی اقدام شرعاً ناجائز ہو گا۔ بہرحال اس سلسلہ میں ہمارا رحجان یہ ہے کہ جہاں صنف نازک کو ضرر محسو س ہو تو اس کی خلاصی کے لیے بواسطہ عدالت کوئی نہ کوئی راہ تلاش کرنا ہو گی کیوں کہ اسے تکلیف دے کر روکے رکھنا شرعا ناجائز اور حرام ہے۔ اس سلسلہ میں امام بخاری کا موقف انتہائی وزنی اور عقل و نقل کے عین مطابق ہے۔ واللہ اعلم!
لڑکی کو نا پسندیدہ شخص سے شادی پر مجبور کرنا
سوال: میں ایک کالج میں بی اے کی طالبہ ہوں، مجھے میرے والدین ایک ایسے شخص سے نکاح کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو مجھے انتہائی ناپسند ہے، کیا مجھے والدین کی اطاعت کرتے ہوئے ایسے شخص سے نکاح کر لینا چاہیے؟ جسے میں پسند نہیں کرتی ہوں۔
|