’’نیک فرمانبردار بیویاں خاوند کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت سے نگہداشت رکھنے والی ہوتی ہیں۔‘‘
سوال میں جو صورت حال بیان ہوئی ہے وہ شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’قیامت کے دن اللہ کے ہاں لوگوں میں سے بدترین درجہ اس شخص کا ہو گا جو اپنی بیوی سے ملتا ہے اور وہ اس سے ملتی ہے اور پھر وہ اس کے راز افشاء کرتا ہے۔‘‘[1]
یہی حکم بیوی کا ہے، اسے چاہیے کہ اگر خاوندمیں کوئی کوتاہی ہے تو اسے آگاہ کرے، دوسروں کو بتانا، اس کی خیانت کرنا ہے جو شرعا جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
لڑکی والوں کی طرف سے رشتے کی پیشکش
سوال: عام طور پر لڑکیوں کی شادی کے معاملہ میں اس امر کا انتظار کیا جاتا ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے پیغام میں پہل ہو، اس انتظار میں اچھے سے اچھے رشتے ضائع ہو جاتے ہیں، اس سلسلہ میں ہماری شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟
جواب: لڑکی والوں کی طرف سے اس بات کا انتظار کرنا کہ دوسری طرف سے پہل ہو ایک فطرتی بات ہے لیکن اسے حد سے بڑھانا کسی طور پر مناسب نہیں۔ اگر کسی کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہے اور اسے کوئی مناسب رشتہ نظر آتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ خود یا کسی کے ذریعے پیغام نکاح میں ابتداء کرے۔
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک عنوان بایں طور پر قائم کیا ہے:
((باب عرض الانسان ابنتہٗ او اختہ علی اہل الخیر))
’’کسی انسان کا اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ اہل خیر سے پیش کرنا۔‘‘ [2]
پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جب ان کی دختر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں تو انہوں نے ان کا رشتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پیش کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس معاملہ میں غوروفکر کروں گا، آخر کار انہوں نے جواب دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کا تم سے نکاح کر دوں؟
سیدنا ابو بکر رضی ا للہ عنہ خاموش رہے اور انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ان کے عدم التفات کی وجہ سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ غصہ آیا۔ ابھی چند دن گزرے ہوں گے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیج دیا تو میں نے آپ سے اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح کر دیا۔[3]
اسی طرح سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنی بہن کا رشتہ از خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تھا تاکہ ان کی بہن بھی ان کے ساتھ خیر و برکت میں شریک ہو، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
|