٭ اللہ تعالیٰ سے دعا اور التجاء کرے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اسے محفوظ رکھے۔
اگر انسان ایسے حالات میں عبادت اور عمل میں لگ جائے تو امید ہے کہ تمام وساوس اور خیالات کافور ہو جائیں گے۔ قرآن کریم نے اس قسم کے خیالات کو شیطان کا بہت بڑا ہتھیار قرار دیا ہے اور ان سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے جیسا کہ سورۃ الناس میں اس کی صراحت ہے۔ امید ہے کہ درج بالا علاج کرنے سے سائل کو ایسے وساوس سے نجات مل جائے گی۔ واللہ اعلم
ایک سوال کے مختلف جواب
سوال :حدیث میں ہے کہ کسی نے اسلام کے متعلق سوال کیا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مختلف جوابات دئیے ہیں جو احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: ایک ہی سوال کے مختلف جوابات اس بناء پر ہوتے ہیں کہ سائل کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔ اس کی ضرورت کو دیکھ کر جواب دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نماز کا پابند ہے، روزے بھی رکھتا ہے لیکن طبیعت میں ذرا بخل ہے تو اس شخص کو ایسا عمل بتایا جائے گا جو اس کمی کی تلافی کر سکے۔
اسی طرح ایک شخص مہمان نواز ہے، رحم دل بھی ہے لیکن نماز میں کوتاہی کرتا ہے تو اسے نماز کے متعلق تلقین کی جائے گی کہ یہ افضل عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمارے لیے روحانی مربی ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص میں کوئی کمی دیکھی اسے اس کے متعلق ترغیب دی۔ مثلاً ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: ’’کس انسان کا اسلام افضل ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘[1]
جبکہ ایک دوسری حدیث میں اسی قسم کا ایک سوال ہوا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم کھانا کھلاؤ، سب کو سلام کرو، خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے۔‘‘[2]
اس حدیث میں کھانا کھلانے کو بہترین اسلام سے تعبیر کیا گیا ہے، اس میں مسلم یا غیر مسلم کی تخصیص بھی نہیں ہے بلکہ دیگر احادیث کے مطابق جانوروں کو بھی کھلانے میں اجر و ثواب بتایا گیا ہے۔ البتہ مسلمان کو کھلانے میں زیادہ اجر و ثواب ہوگا۔
واضح رہے کہ دونوں احادیث میں اسلام کے افضل اور بہتر ہونے کو بیان کیا گیا ہے، اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے اسم تفضیل کے صیغے ہیں تاہم افضل کے معنی کثرتِ ثواب کے ہیں، جو قلت کے مقابلے میں ہے اور خیر کے معنی نفع کے ہیں جو شر کے مقابلے میں ہے۔
پہلا سوال مقدار سے متعلق اور دوسرے سوال کا تعلق معیار سے ہے۔ بہرحال ایک ہی قسم کے سوال کے مختلف جوابات کسی حکمت کے تحت ہوتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سائل کی حالت کو دیکھ کر جواب دیا کرتے تھے۔ جو بظاہر مختلف لگتا ہے۔ واللہ اعلم
|