اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ربیبہ صرف والد پر حرام ہے، اس کے بیٹوں پر حرام نہیں۔ وہ آپ کے والد کی بیوی کی وہ بیٹی ہے جو اس کے پہلے خاوند سے ہے اور اس کا والد کے لڑکوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بناء پر سائل اس سے بلاتردد شادی کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ﴾[1]
’’ان عورتوں کے علاوہ دیگر عورتیں تم پر حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘
مذکورہ ربیبہ ان عورتوں میں شامل نہیں جو اس سے پہلے آیت میں بطور نص حرام کر دی گئی ہیں اور نہ ہی اس کی حرمت کا ثبوت کسی حدیث سے ملتا ہے، لہٰذا ایسی عورت سے شادی کرنا جائز ہے۔
بیوہ عورت کا ولی کے بغیر نکاح کرنا
سوال: ہمارے پڑوس میں ایک بیوہ ہے، اس کے والد عقد ثانی کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں، اس نے کسی سے مسئلہ پوچھا تو بتایا گیا کہ بیوہ خود مختار ہے، اس کے ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے، اس نے خفیہ طور پر کسی سے نکاح کر لیا، نکاح کے وقت وہاں صرف نکاح خواں، دولہا، وہ خود اور ایک اور آدمی موجود تھا، کیا یہ نکاح درست ہے؟ وہ خود بھی پریشان ہے کہ اس کے والد کسی دوسری جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں، کیا دوسری جگہ پر نکاح کرنا، نکاح پر نکاح تو نہیں ہو گا،کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟
جواب: دین اسلام میں کوئی بھی مسلمان عورت اپنے نکاح کا معاملہ از خود طے نہیں کر سکتی خواہ وہ بیوہ ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس کے نکاح کا معاملہ اس کے ولی کی وساطت سے انجام پائے گا۔ احادیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔‘‘[2]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو وہ نکاح باطل ہے،وہ نکاح باطل ہے، وہ نکاح باطل ہے۔‘‘[3]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت، کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔‘‘[4]
ان احادیث کے پیش نظر ولایت کے لیے مرد کو ضروری قرار دیا گیا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ باپ کے بجائے ماں ولی
|