طویل ہونے کا ذکر ہے اس کا مرفوع ہونا محل نظر ہے۔ کیوں کہ کچھ احادیث میں صراحت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہوں گے۔ بہرحال یہ روایت صحیح ہے کیوں کہ بخاری اور مسلم کی شرائط کے عین مطابق ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں جو کہ قرب قیامت کے وقت نزول فرمائیں گے۔ (واللہ اعلم)
صفات باری تعالیٰ
سوال :قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے حضرت آدم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا، اس آیت کریمہ کا کیا مفہوم ہے؟ وضاحت کردیں۔
جواب: اس آیت کا سیاق و سباق یوں ہے کہ جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قَالَ يٰۤاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾[1]
’’اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اسے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو ’’کن‘‘ کہہ کر پیدا کیا لیکن آدم کے خمیر کو اپنے ہاتھوں سے گوندھا، پھر اس کا پتلا بنا کر اس کی نوک پلک کو ٹھیک کیا، اس کے بعد اپنی طرف سے اس میں روح پھونک کر اسے جیتا جاگتا انسان بنایا پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کے اعزاز و اکرام میں اسے سجدہ کرو، ابلیس کے علاوہ تمام فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے حکم عدولی کا جواب طلب کیا جس کا ذکر مذکورہ آیت میں ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں، کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کی تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے، جبکہ یہ معنی آیت کے سیاق و سباق کے خلاف ہے کیوں کہ یہ معنی کرنے سے آدم کی کوئی برتری ثابت نہیں ہوتی جس کی بناء پر اسے لائق سجدہ ٹھہرایا جائے۔ کیوں کہ کائنات کی تمام چیزیں اللہ کی قدرت کا شاہکار ہیں، اگر آدم بھی اللہ کی قدرت سے پیدا ہوا ہے تو اس میں ان کی کیا فضیلت ہے۔ جو لوگ اللہ کی اس صفت کا انکار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم اللہ کے ہاتھ مان لیں تو وہ ہمارے جیسا ہو جائے گا حالانکہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں، لیکن لوگوں کی یہ بات درست نہیں کیوں کہ یہ تو اس وقت ہوگا جب ہم اللہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں جیسا تسلیم کریں۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ ہیں لیکن ہمارے ہاتھوں جیسے نہیں بلکہ ایسے ہیں جیسے اس کی شان کے شایان ہیں، یہ معنی کرنے سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور ہم بھی موجود ہیں، کیا ہمارے موجود ہونے سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کر دیا جائے گا کہ اس سے مشابہت لازم آتی ہے، اللہ کی ذات بھی بے مثل ہے اور اس کی صفات بھی بے مثل ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کے شبہات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کرتے ہیں یا پھر تاویل کا سہارا لیتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کا چہرہ اور اس کے ہاتھ ہیں لیکن ہمارے جیسے نہیں بلکہ
|