نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اسے اس کا اور اس کے بعد اس کے مطابق عمل کرنے والوں کا اجر و ثواب ملے گا، اس حدیث کی کیا حیثیت ہے؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کتب حدیث میں موجود ہے لیکن اس کا مفہوم غلط بیان کر کے اس سے بدعت کا جواز کشید کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خاندان مضر کے چند مفلوک الحال لوگ آئے جو انتہائی فاقے کی حالت میں تھے اور انہیں مالی تعاون کی شدید ضرورت تھی۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو صدقہ و خیرات کرنے کی ترغیب دی تو ایک شخص چاندی کی تھیلی لے کر آیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا اسے اس کا اور اس کے بعد اس کے مطابق عمل کرنے والوں کا اجر و ثواب ملے گا۔‘‘[1]
اس حدیث کے مفہوم کے مطابق طریقہ شروع کرنے سے مراد اللہ کے کسی حکم کے مطابق عمل کرنا ہے، اس کا معنی ایجاد کرنا نہیں۔ کیوں کہ کسی عمل کا حکم تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے، لہٰذا اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو شخص کسی سنت کے مطابق عمل کا آغاز کرے اور لوگ اس میں اس کی اقتداء کریں تو اسے امور سنت کے مطابق عمل کرنے کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کے اجر و ثواب کے برابر بھی اجر و ثواب ملے گا جو اس کے مطابق عمل کریں گے۔ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ انسان جو چاہے شریعت میں ایجاد کر سکتا ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((کل بدعۃ ضلالۃ)) ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ [2]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تم (دین میں) نئے نئے کاموں سے اجتناب کرو، کیوں کہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘[3]
واضح رہے کہ مروّجہ قرآن خوانی محض ایک رسم ہے جس کا خیر القرون میں کوئی ثبوت نہیں ملتا، اگر خیر القرون نے یہ کام کیا ہوتا تو ضرور کتب حدیث میں اس کا ذکر ہوتا، جب اس کا کوئی ذکر نہیں تو اس کے بدعت ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ واللہ اعلم
ایک حدیث کی تحقیق
سوال: اکثر خطباء یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اللہ کی راہ میں دو ذبح ہونے والوں کا بیٹا ہوں۔‘‘ اس حدیث کی حیثیت واضح کریں کہ صحیح ہے یا خودساختہ؟
|