میت کے بھانجے کو کچھ نہیں ملے گا، وہ محروم ہے۔ سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے بارہ حصے کر لیے جائیں، ان میں سے تین حصے بیوہ کو، دو حصے مادری بہن کو اور باقی سات حصے چچا کے بیٹے کو دے دئیے جائیں۔
میت کی کل جائیداد کے 12 حصے
بیوہ مادری بہن چچا کا بیٹا بھانجا
4؍1 6؍1 باقی ماندہ محروم
3 2 7 x
واللہ اعلم!
مسئلہ وصیت
سوال: ہمارا بھائی لا ولد فوت ہوا، مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی تھی کہ میرا مکان کسی مسجد کو دے دیا جائے جبکہ مکان کے علاوہ اس کا مزید کوئی ترکہ نہیں۔ کیا اس قسم کی وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے؟
جواب: جب انسان فوت ہوتا ہے تو اس کے ترکہ سے تین قسم کے حقوق نکال کر تقسیم کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
وہ تین حقوق حسب ذیل ہیں:
٭ کفن و دفن: اگر کفن و دفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے ترکہ سے مناسب انداز میں کفن و دفن کا انتظام کیا جائے۔
٭ ادائیگی قرض: میت کے ذمے جتنا قرض ہو اسے ادا کیا جائے خواہ قرض کی ادائیگی میں سارا ترکہ صرف ہوجائے اور ورثاء کے لیے کچھ بھی نہ بچے۔
٭ اس کے بعد میت کی جائز وصیت کو پورا کیا جائے۔
جائز وصیت کی درج ذیل تین شرائط ہیں۔
ا: وصیت کسی وارث کے حق میں نہ ہو، جسے ترکہ سے حصہ ملنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ترکہ سے ہر حق دار کا حق مقرر کر کے اسے دے دیا ہے، اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔ [1]
ب: وصیت کسی صورت میں تہائی سے زیادہ نہ ہو ۔
کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’اپنے مال سے ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو لیکن تہائی حصہ بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘[2]
|