غروب ہو جاتا۔[1]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں نمازوں کے لیے جو نظام اوقات جاری کیا تھا اس کے مطابق نماز مغرب کا وقت غروب آفتاب کو قرار دیا گیا۔[2]
ان واضح نصوص کی موجودگی میں نماز مغرب کے لیے اذان کو بلاوجہ پانچ منٹ دیر سے اللہ تعالیٰ کے دین میں مداخلت ہے۔ پھر افطاری کے لیے اذان کی بجائے سائرن کی آواز کو انتخاب بھی سخت محل نظر ہے۔ جبکہ قرون اولیٰ سے لے کر اب تک رمضان المبارک میں افطاری اذان کہنے سے ہوتی آرہی ہے۔ اب اذان کے بجائے سائرن بجانا، ایک بہتر چیز کی بجائے گھٹیا چیز کا انتخاب کرنا ہے۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِيْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِيْ هُوَ خَيْرٌ﴾[3]
’’کیا تم ایک بہتر چیز کے بجائے گھٹیا درجے کی چیز لینا چاہتے ہو۔‘‘
ہمارے رجحان کے مطابق جب سورج غروب ہو جائے تو نماز مغرب کے لیے اذان دینا ہی مسنون عمل ہے اور اسی طرز پر روزہ افطار کرنا چاہیے۔ اذان کو بلا وجہ مؤخر کرنا اور اس کے بجائے سائرن پر روزے افطار کرنا ہمارے نزدیک درست نہیں۔ واللہ اعلم
عورت کی امامت
سوال :میں کالج میں زیر تعلیم ہوں، ہمیں کالج میں نماز ظہر ادا کرنا پڑتی ہے۔ میں لڑکیوں کی امامت کراتی ہوں، کیا عورت کا امامت کرانا جائز ہے؟ میں نے سنا ہے کہ عورت امامت نہیں کروا سکتی، اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کریں۔
جواب: عورت، عورتوں کی امامت کروا سکتی ہے، لیکن وہ امامت کرواتے وقت آگے بڑھ کر کھڑی نہیں ہوگی بلکہ وہ دوسری عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔
چنانچہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’باب امامۃ النساء‘‘ ’’عورتوں کی امامت کا مسئلہ۔‘‘[4]
پھر ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اس کے گھر میں ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لیے اذان دیتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کی امامت کروایا کرے۔[5]
|