((باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ))
’’اعمال کا اعتبار نیتوں کے ساتھ ہے اور ثواب کا ارادہ کرنا ضروری ہے۔‘‘
آپ مزید فرماتے ہیں کہ ہر انسان کو وہی کچھ دیا جائے گا جو اس نے نیت کی ہوگی، اس میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور دیگر تمام افعال شامل ہیں۔[1]
روزے کی نیت کے متعلق خاص حکم ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جس شخص نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی تو اس کا روزہ درست نہ ہوگا۔‘‘[2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض روزے کی فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے اور افضل یہ ہے ہر روزے کی نیت علیحدہ کی جائے۔ یہ عزم و ارادہ غروب آفتاب کے بعد صبح صادق کے طلوع سے پہلے پہلے کرنا چاہیے، البتہ نفلی روزے کی نیت کے متعلق یہ پابندی نہیں بلکہ اس کی نیت دن کے وقت میں کی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے پاس تشریف لاتے تو دریافت فرماتے: ’’کیا تمہارے ہاں کوئی کھانا ہے؟‘‘ جب ہم کہتے کہ ’’نہیں‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ’’تب میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔‘‘[3]
مگر خیال رہے کہ نیت، دل کے عزم و ارادہ کا نام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لفظی نیت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا آج کل مختلف کیلنڈروں اور کتب میں جو نیت کے الفاظ درج ہوتے ہیں، روزہ کی نیت کے طور پر انہیں پڑھنا درست نہیں۔ بلکہ اس قسم کا اہتمام بدعت ہے، جس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔
واضح رہے کہ اگر کسی کو دن کے وقت رمضان کی اطلاع ملے تو وہ اسی وقت نیت کر لے اور روزہ رکھ لے بشرطیکہ اس سے پہلے کچھ کھایا پیا نہ ہو، لیکن نفلی روزہ کے لیے فجر سے پہلے نیت کا اہتمام ضروری نہیں ہے۔ واللہ اعلم!
چاند دیکھنے کی شہادت
سوال: رمضان کے مہینہ کا آغاز چاند سے ہوتاہے، اس کی گواہی کا کیا ضابطہ ہے؟ کیا یہ ضابطہ تمام مہینوں کے لیے یکساں ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: رمضان ہو یا کوئی دوسرا مہینہ، بلکہ سال کے تمام مہینوں کا آغاز نئے چاند سے ہوتا ہے، اس میں فلکی حساب پر انحصار کرنا درست نہیں، مہینے کے آغاز کے تین طریقے حسب ذیل ہیں:
٭ چاند کو خود دیکھا جائے۔ ٭ کسی عادل شخص کی گواہی پر اعتبار کیا جائے۔
|