وحجاب کی شرعی پابندیاں ختم ہو جائیں، لہٰذا منگنی ہونے کے بعد کھلی گفتگو، آزادانہ گپ شپ کرنا اور علیحدگی میں میل ملاقات کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ واللہ اعلم!
خلع کب لیا جائے؟
سوال: میری شادی کو چار سال ہو چکے ہیں، میرے میاں مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، میں کئی مرتبہ ان سے طلاق کا مطالبہ کر چکی ہوں لیکن وہ مجھے آباد بھی نہیں کرتے اور مجھے طلاق بھی نہیں دیتے۔ شریعت میں میرے لیے اس سے خلاصی کی کوئی صورت ہے؟
جواب: نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ نے خاوند کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر بیوی سے نباہ ممکن نہ ہو تو اسے طلاق دے کر فارغ کر دے، لیکن اگر عورت پر ظلم ہو رہا ہو اورخاوند اسے طلاق بھی نہ دے اور اس کے ساتھ حسن معاشرت کا بھی مظاہرہ نہ کرے تو اسے اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ اس طرح خلاصی حاصل کرنے کو شرعی اصطلاح میں خلع کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ دے دلا کر اپنے خاوند سے فراغت حاصل کر لے۔ خلع کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یعنی اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی شکل و صورت، اس کی سیرت و کردار، یا عمر میں بڑا یا کمزور ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ ایسے حالات میں خاوند کی فرمانبرداری میں اس کا حق ادا نہیں کر سکے گی تو اس کے لیے جائز ہے کہ مال وغیرہ بطور فدیہ دے کر اس سے علیحدگی اختیار کر لے۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
٭ خلع پر میاں بیوی راضی ہوں اور گھر میں ہی معاملہ طے کر کے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں۔
٭ اگر ان کا باہمی اتفاق نہ ہو سکے تو حاکم وقت کے ذریعے بیوی اپنے خاوند سے علیحدگی حاصل کر سکتی ہے لیکن بلاوجہ عورت کا اپنے خاوند سے علیحدگی کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عورت بھی کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے درمیان خلع کروایا تھا۔ جب اس نے شکایت کی تھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اپنے خاوند سے اس کے دین و اخلاق کے متعلق کوئی شکایت نہیں،ا لبتہ میں اسلام میں رہتے ہوئے اس کی ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا تو حق مہر میں دیا ہوا باغ واپس کر سکتی ہو؟‘‘
|