جواب: جنازہ کے استحقاق کے متعلق اہل علم کے ہاں تین آراء حسب ذیل ہیں:
٭ حاکم یا اس کا نائب جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار ہے، اگر وہ نہ ہو تو قاضی، اگر وہ بھی موجود نہ ہو تو محلے کا امام نماز جنازہ پڑھائے۔
٭ جنازہ پڑھانے کا وہ زیادہ حق دار ہے جس کے لیے میت نے جنازہ پڑھانے کی وصیت کی ہو، جیسا کہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وصیت کے مطابق جنازے پڑھائے گئے، اگر ایسا نہیں تو حاکم، اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کے رشتے دار زیادہ حق دار ہیں۔
٭ اس کا قریبی رشتہ دار جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق رکھتا ہے، کیوں کہ میت کے متعلق مخلصانہ جذبات اقرباء میں زیادہ ہوتے ہیں۔
ہمارے رحجان کے مطابق حاکم یا اس کا نائب زیادہ حق رکھتا ہے۔
جیسا کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا جنازہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گورنر سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے پڑھایا، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ کے لیے انہیں خود آگے کیا تھا، وہ جنازہ پڑھاتے وقت رو رہے تھے۔[1]
واضح رہے کہ سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں اوروہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ طیبہ کے گورنر تھے، انہیں فتنوں سے بے انتہاء نفرت تھی، انہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے ہوئے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی۔
اس حیثیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ ہر جگہ اور ہر وقت حاکم وقت یا اس کا نائب میسر نہیں ہوتا، پھر آج کل تو حاکم وقت بھی نااہل اور نالائق ہوتے ہیں جو جنازہ پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے، لہٰذا مسجد کا حقیقی حاکم اس کا امام ہی ہوتا ہے، لہٰذا دیگر نمازوں کی طرح نماز جنازہ کا استحقاق بھی مسجد کے مستقل امام کا ہے الا یہ کہ میت نے کسی کو جنازہ پڑھانے کی وصیت کی ہو، اس صورت میں جسے وصیت کی گئی ہے، وہی میت کا جنازہ پڑھائے گا۔ واللہ اعلم
میت پر نوحہ کرنا
سوال: ہمارے ہاں جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اہل خانہ چیختے چلاتے ہیں، کیا میت پر نوحہ کرنے سے کوئی اثر ہوتا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: مرنے کے بعد میت پر چیخنا، چلانا اور نوحہ کرنا ناجائز ہے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بوقت مصیبت رخسار پیٹتا، گریبان پھاڑتا اور جاہلانہ انداز میں چیختا چلاتا ہے وہ ہم سے نہیں ہے۔[2]
|