البتہ اعلان والی بات صحیح اور ثابت ہے، اس اعلان نکاح کا مطلب یہ ہے کہ ایجاب و قبول اہل اسلام کی مجلس میں کیا جائے، اس کے لیے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا جائے تاکہ عام لوگوں کو اس کا علم ہو جائے کہ فلاں شخص کا نکاح فلاں خاتون سے ہوا ہے۔ اس طرح ناجائز تعلقات کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔
روایت کا مذکورہ یہ حصہ صحیح سند سے ثابت ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔[1]
غالباً امام ترمذی رحمہ اللہ نے پہلے جملے کی وجہ سے اسے حسن قرا ر دیا ہے کیوں کہ اس کی تائید سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت سے ہوتی ہے۔[2]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس امر کی وضاحت کی ہے۔[3]
ہمارے رحجان کے مطابق مسجد میں نکاح پڑھانے کی اجازت ہے لیکن اسے سنت کا درجہ دینا درست نہیں۔ کیوں کہ اس عمل کے مسنون ہونے کی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں۔[4]
لیکن اس کے لیے بھی شرط ہے کہ مسجد کے تقدس کو مجروح نہ کیا جائے، فوٹو گرافی اور فلم بندی سے اجتناب کرتے ہوئے سادگی کے ساتھ اس فریضہ کو مسجد میں ادا کیا جا سکتا ہے۔
البتہ تقریب میں کھانے پینے اور دیگر سماجی و معاشرتی رسوم کے لیے گھر، ہوٹل، ریسٹورینٹ، کھلے میدان ، میرج ہال اور کھلی گلی میں اہتمام کیا جائے، مساجدمیں عقیقہ، ختنہ، سالگرہ اور بارات وغیرہ کی تقاریب نہیں ہونی چاہییں، کیوں کہ ایسا کرنا ان کے تقدس کے خلاف اور ادب و احترام کے منافی ہے۔ البتہ کسی مسافر، معتکف اور ضرورت مند کی مہمان نوازی مسجد میں کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم!
مسجد میں تھوکنا
سوال: حدیث میں ہے کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے۔ اس حدیث کا حوالہ درکار ہے نیز بتائیں کہ مسجد میں تھوکا جا سکتا ہے جبکہ ہماری مساجد تو بہت خوبصورت ہوتی ہیں؟
جواب: ابتدائے اسلام میں مساجد کچی تھیں اور ان کے صحن میں مٹی یا ریت وغیرہ ہوتی تھی جن میں تھوک لینا اور پھر اسے مٹی یا ریت میں چھپا دینا ممکن تھا جبکہ آج کل مساجد پختہ اور ان کے فرش بھی پختہ ہیں۔ جن پر بہترین چٹائیاں یا قالین بچھے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں مساجد کے درودیوار پر تھوکنا سخت گناہ اور مساجد کی بے حرمتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو مساجد کے تقدس کو اس طرح پامال کرتے ہیں۔ سوا ل میں جو حدیث ذکر کی گئی ہے اسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
|