آداب و اخلاق
قومی امانت
سوال: کچھ لوگ سرکاری جنگلات سے چوری لکڑیاں کاٹ لاتے ہیں اور اسے اپنے لیے حلال کہتے ہیں، اسی طرح سرکاری بجلی، گیس اور پانی وغیرہ اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور اس کا بل ادا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ مال ہمارے ہیں اور ہمیں ان کے استعمال کی اجازت ہے، کیا واقعی ان کی بات درست ہے؟
جواب: شخصی امانت میں خیانت بہت سنگین جرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت میں خیانت کرنے کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ [1]
لیکن جو قومی امانت ہے اس میں خیانت کرنا بہت بڑا جرم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک غلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدمت گزار تھا، اس نے غنیمت کے مال میں سے ایک اونی چادر لے لی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ سے پالان اتار رہا تھا کہ اسے نامعلوم طرف سے تیر آن لگا جس سے وہ مر گیا، لوگوں نے اسے دیکھ کر کہا: ’’اسے جنت مبارک ہو۔‘‘ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں! مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلاشبہ وہ چادر جو اس نے خیبر کے روز تقسیم سے پہلے غنیمت میں سے اٹھا لی تھی، وہ اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔ لوگوں نے جب یہ سنا تو کوئی ایک تسمہ لے آیا اور کوئی دو تسمے، یہ تسمے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرنا چاہے، آپ نے فرمایا: یہ تسمہ آگ کا ہے اور یہ دو تسمے آگ کے ہیں۔‘‘[2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قومی امانتوں کا معاملہ انتہائی سخت اور انتہائی نازک ہے، اجازت کے بغیر جنگلات کی لکڑیاں کاٹنا، بجلی یا گیس یا نہری پانی استعمال کرنا، اللہ کے ہاں بہت بڑے عقاب کا باعث ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ غنیمتوں کی تقسیم کے بعد ایک آدمی بالوں سے تیارہ کردہ ایک لگام لے کر آیا اور کہا یا رسول اللہ! یہ ہمیں غنیمت میں ملی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تو نے بلال رضی اللہ عنہ کو منادی کرتے سنا تھا؟
اس نے کہا جی ہاں! سنا تھا۔
|