باری تعالیٰ ہے:
﴿يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ يَخَافُوْنَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِيْرًا﴾[1]
’’وہ اپنی نذر کو پورا کرتے ہیں اور ایسے دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کا انجام بہت بھیانک ہے۔‘‘
جب کہ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع فرمایا ہے کیوں کہ یہ تقدیر کو نہیں روک سکتی۔[2]
محدثین کرام نے اس آیت کریمہ اور حدیث مذکور میں یوں تطبیق دی ہے کہ نذر کی دو اقسام حسب ذیل ہیں:
٭ نذر مطلق:… انسان اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی عبادت کی نذر مان لے۔ مثلاً میں صدقہ کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہوں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دور جاہلیت میں ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔[3]
٭ نذر معلق:… مشروط طور پر اچھا کام کرنے کی نذر ماننا۔ مثلاً یوں کہا جائے کہ ہمارے بیمار کو شفا ہوئی تو میں اتنا صدقہ کروں گا۔ اس قسم کی نذر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ تاہم اس کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، اگر اسے پورا کرنے کی ہمت نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ قسم کا کفارہ دے کر فارغ ہو جائے۔
جیسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نذر کا کفارہ، قسم کا کفارہ ہے۔‘‘[4]
صورت مسؤلہ میں طالبہ کو چاہیے کہ وہ قسم کا کفارہ دے دے اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو درمیانے درجے کا کھانا کھلا دے یا انہیں لباس دے دے۔ اگر ان کی ہمت نہیں ہے تو تین دن کے مسلسل یا متفرق روزے رکھ لے لیکن آئندہ ایسے معاملات میں احتیاط کرنی چاہیے کہ کوئی ایسا کام اپنے ذمے نہ لیا جائے جسے پورا کرنے کی ہمت نہ ہو۔ واللہ اعلم!
نابینا سے پردہ
سوال: میں نے بچپن میں ایک نابینا سے قرآن مجید حفظ کیا، اب میں شادی شدہ ہوں، بعض اوقات انہیں ملنے کے لیے جاتی ہوں تو کیا مجھے ان سے پردہ کرنا چاہیے جب کہ انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ قرآن و حدیث کے مطابق جواب مطلوب ہے۔
جواب: شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے اساتذہ سے میل ملاقات اور رابطہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عورت کو ملاقات کے وقت خلوت ممنوع ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’کوئی آدمی کسی عورت کے محرم کے بغیر اس کے ساتھ خلوت نہ کرے۔‘‘[5]
|