جواب: بلاشبہ حدیث میں ابو القاسم کنیت رکھنے کی ممانعت ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میرا نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو۔‘‘[1]
اس حدیث کا پس منظر حضرت جابر رضی اللہ عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک آدمی کے گھر بچہ پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا، دوسرے لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ابو القاسم کی کنیت سے یاد نہیں کریں گے تاآنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصدیق نہ کر لیں، جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے مذکورہ حدیث بیان کی۔
محدثین نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ابو القاسم کنیت رکھنے کی ممانعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک تھی، یعنی آپ کی زندگی میں یہ کنیت اختیار کرنا جائز نہیں تھا۔ اس کی ممانعت کے لیے یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بازار میں تھے کہ ایک شخص نے ابو القاسم کہہ کر آواز دی، آپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آواز دینے والے نے کہا کہ میں نے آپ کو آواز نہیں دی بلکہ میں نے تو فلاں شخص کو آواز دی ہے۔ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کنیت رکھنے سے منع کر دیا۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد ابو القاسم کنیت رکھنے کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر آپ کے بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو توکیا میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام اور کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘[3]
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد آپ کا نام اور آپ کی کنیت ابو القاسم رکھنے میں چنداں حرج نہیں۔ اس مسئلے کے متعلق مزید تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بخاری حدیث نمبر ۶۱۸۸ کے تحت بیان کی ہے۔
سیر و تفریح کے لیے غیر مسلم ممالک کا سفر
سوال: اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہم مسلمان سیر و تفریح کے لیے کسی کافر ملک کا انتخاب کرتے ہیں، کیا سیر و سیاحت کے لیے ایسے ممالک میں جانا جائز ہے جہاں غیر مسلم لوگوں کی حکومت ہو؟
جواب: کفار کے ممالک کی طرف بوقت ضرورت سفر کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جو حسب ذیل ہیں:
٭ اس کے پاس شرعی علم اس قدر ہو کہ وہ کفار کے شکوک و شہبات کا شافی جواب دے سکے۔
٭ اس پر دینی رنگ اس قدر غالب ہو کہ غیر مسلم لوگوں کی تہذیب سے متاثر نہ ہو سکے۔
٭ اسے سفر کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو جو اسلامی ممالک میں پوری نہ ہو سکتی ہو۔
|