کاروبار میں جو محنت کر کے کمایا ہے وہ والد کا ہی شمار ہوگا۔ والد کی وفات کے بعد وہ ترکہ کی تقسیم کے وقت اپنے حصے کا حق دار ہوگا، زیادہ حصہ لینے کا مجاز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مطلق طور پر یہ فرمایا ہے کہ:
﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ﴾[1]
’’بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دو گنا حصہ دیا جائے گا۔‘‘
اس میں باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک یا غیر شریک کی کوئی تفریق نہیں، لہٰذا وہ اپنے حصے کا حق دار ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق شرعی حصے سے زیادہ لینے کی دو صورتیں ممکن ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہیں:
٭ بیٹے نے باپ کے ساتھ کاروبار میں شراکت کی ہو اور اس کے لیے کچھ مال اس کاروبار میں لگایا ہو، اس صورت میں وہ اپنے شراکتی حصے کے مطابق شرعی حق سے زیادہ وصول کرنے کا مجاز ہے کیوں کہ کاروبار میں باضابطہ طور پر شریک ہے۔
٭ بیٹے نے باپ کے کاروبار میں ملازم کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ہو تو وہ اس صورت میں اجرت کا حق دار ہے بشرطیکہ اس کی اجرت طے شدہ ہو اور معروف طریقہ کے مطابق ہو، وہ شروع سے ہی اپنی اجرت وصول کرتا رہا۔
ان دو صورتوں کے علاوہ باپ کی جائیداد سے زیادہ حصہ نہیں لے سکتا۔ کیوں کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ معاون اور مددگار کی حیثیت سے باپ کے کاروبار میں شامل ہوا ہے اور ایسا کرنا معاشرتی ذمے داری ہے۔ ان حالات میں جو محنت کرتا ہے وہ باپ کے لیے ہوگی، البتہ آخرت میں اسے اس مدد و تعاون کی وجہ سے اضافی ثواب ضرور ملے گا۔ ان شاء اللہ!
بیوٹی پارلر کا کاروبار
سوال: ہمارے معاشرہ میں آج کل بیوٹی پارلر کا کام عروج پر ہے، اس میں دلہا اور دلہن کو سنوارا جاتا ہے اور اس کے عوض بھاری رقم وصول کی جاتی ہے، شرعی طور پر اس قسم کے کاروبار کی کیا حیثیت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: دور جاہلیت میں عورتیں اپنے حسن و جمال میں اضافے کے لیے زیب و زینت کے ایسے طریقے اختیار کرتی تھیں جن میں دھوکہ اور فریب کا عنصر شامل ہوتا تھا یا پھر ان میں اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کا اظہار ہوتا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کاموں کو باعث لعنت ٹھہرایا ہے۔
جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو اپنے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے جسم کے کسی حصہ میں سرمہ بھرتی یا بھرواتی ہیں، چہرے کے بال اکھاڑتی ہیں اور اپنے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرتی ہیں۔ ایسا کرنے والی عورتیں اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں میں ایسی عورتوں پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔‘‘[2]
آج کل بھی یہ جاہلی فیشن عورتوں میں عام ہے، وہ ابروؤں کے بالوں کو اکھیڑ کر مختلف قسم کے چمکیلے رنگ بھر لیتی ہیں،
|