واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے جبکہ وہ حاملہ نہ ہو، اگر حاملہ ہے تو وضع حمل تک اس کی عدت ہے۔ عدت کے ختم ہونے کے بعد نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس کے بعد تجدید نکاح سے رشتہ ازواج دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
عدت وفات کا آغاز
سوال: میرے دوست سعودیہ میں فوت ہوئے لیکن وہ ایک ماہ بعد پاکستان میں دفن ہوئے، اب اس کی بیوی عدت وفات کس وقت سے گزارے گی، وفات کی تاریخ سے یا دفن ہونے کے وقت سے کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟
جواب: جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے، اس کی عدت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا﴾[1]
’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں، پھر جب عدت ختم کر لیں تو معروف طریقہ کے مطابق اپنے لیے جو کرنا چاہیں، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘
واضح رہے کہ یہ عدت وفات ہر منکوحہ عورت کے لیے ہے، جو مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، جوان ہو یا بوڑھی البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کی مدت وضع حمل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾[2]
’’حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘
اگرچہ سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ عدت مطلقہ عورت کے لیے ہے لیکن اس کے ظاہر اور عموم کا تقاضا ہے کہ ہر حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، وہ مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہو گیا ہو، احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔[3]
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی عدت کا آغاز خاوند کی وفات سے ہو گا اگرچہ وہ کئی ماہ بعد دفن ہو۔ اگر عورت کو اس کا علم نہیں ہو سکا حتی کہ اس کی عدت کے ایام ختم ہو گئے تو اس پر دوبارہ عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔ صورت مسؤلہ میں اگر بیوی کو اپنے خاوند کی وفات کا علم ہو گیا تھا تو اسے یوم وفات سے عدت گزارنا ہو گی، یوم دفن تک اسے مؤخر کرنا درست نہیں۔ (واللہ اعلم)
دوران عدت بیوی کو طلاق دینا
سوال: کسی آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، پھر دوران عدت دوسری طلاق دے دیتا ہے جبکہ اس نے ابھی تک رجوع نہیں کیا، آیا پہلی طلاق دینے کے بعد رجوع لازمی ہے یا رجوع کے بغیر ہی دوسری طلاق ہو جائے گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
|