جس عابد کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہی پورے اخلاص کے ساتھ اپنا کام کرتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے ان دونوں کا ایک ہی درجہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک دوسرے جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم نہیں دیکھ رہے تو پھر بھی احسان پر قائم ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔ گویا دوسرا جملہ پہلے جملے کی علت ہے۔ یعنی دارومدار تمہارے دیکھنے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دیکھنے پر ہے، وہ تو بہرحال دیکھ ہی رہا ہے تم دیکھو یا نہ دیکھو۔ لہٰذا عبادت کو ہمیشہ اچھے طریقے سے کرنا چاہیے۔
غالی قسم کے صوفیاء نے اپنے ذوق کے مطابق اس مقام پر ایک عجیب تاویل کی ہے کہ (فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ) میں ’’کان‘‘ تامہ ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تم اپنی ہستی کو فنا کر کے ’’لم تکن‘‘ بن جاؤ تو اللہ کو دیکھ سکتے ہو۔ اسے وہ محو و فنا سے تعبیر کرتے ہیں جو من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔ کیوں کہ یہ تاویل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ عربی قواعد سے نابلد ہونے کی علامت ہے کیوں کہ اس صورت میں ’’تراہ‘‘ کا الف جواب شرط ہونے کی بناء پر حذف ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ حدیث کے تمام طرق میں الف موجود ہے۔ اس کے علاوہ اگر یہ معنی لیا جائے تو (فانہ یراک) کا کیا مفہوم ہوگا؟ پھر حدیث میں صراحت ہے کہ مرنے سے پہلے تم اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔[1]بہرحال محو و فنا کی اصطلاحات عجمی ہیں ان سے احتراز کرنا چاہیے پھر ایسی اصطلاحات کے پس منظر میں غلط عقائد کار بھی فرما ہیں۔ واللہ اعلم
کلمہ طیبہ کا ثبوت
سوال :کسی حدیث میں کلمہ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰه ‘‘ کا ذکر آیا ہے؟ کتب احادیث میں اکثر ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ آتا ہے، ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کلمہ طیبہ کا ذکر کسی حدیث میں ہے تو اس کی نشاندہی فرمادیں؟
جواب: ہمارے نزدیک اس قسم کے سوالات سے مراد اپنے دماغ اور ذہن کو فارغ کرنا ہے۔ کیوں کہ ان کا کوئی بھی دینی یا دنیوی فائدہ نہیں۔ تاہم جن احادیث میں صرف ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ آیا ہے وہاں اس کے دوسرے جزو ’’محمد رسول اللہ‘‘ کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے تبویب مسلم میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
’’باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه ‘‘[2]
’’لوگوں سے قتال کا حکم تاآنکہ وہ ’’ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ پڑھیں۔‘‘
اس عنوان کے تحت جو احادیث ذکر کی ہیں ان میں ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا ذکر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ احادیث میں ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا ذکر ہے لیکن معنی کے اعتبار سے ’’محمد رسول اللہ‘‘ بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔
بعض احادیث میں توحید و رسالت پر مشتمل ’’لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کا ذکر بھی آیا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر بایں الفاظ فرمایا:
|