کیا ایسا کرنے سے روزہ تو متاثر نہیں ہوتا؟
جواب: روزے کا مقصد اور ثمرہ حصول تقوی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزے دار ہر قسم کی جسمانی، نفسانی، دنیاوی لذتوں اور خواہشات سے اپنے جسم اور روح کو محفوظ رکھے۔ روزے کے احترام و ادب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر اس کام سے پرہیز کرے جو روزہ میں رخنہ اندازی کا باعث ہے۔
بعض امور ایسے ہیں جو روزے کو باطل تو نہیں کرتے البتہ انسان ان کے ارتکاب کے بعد روزے کے ثواب سے ضرور محروم ہو جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی شب بیدار ایسے ہیں جن کو ان کی شب بیداری سے ماسوائے بیداری کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘[1]
اب ہم چند ایک کاموں کی تفصیل بتاتے ہیں جن کے ارتکاب سے روزہ بے کار ہو جاتا ہے:
(۱) فحش گوئی اور بد زبانی: روزے دار کو چاہیے کہ وہ دوران روزہ فحش گوئی سے اجتناب کرے۔
حدیث میں ہے: ’’جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو اسے فحش گوئی اور جہالت سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘[2]
(۲) گالی گلوچ: روزے کے ساتھ سب و شتم کرنا بھی روزے کی روح ختم کر دیتا ہے۔
حدیث میں ہے: اگر کوئی دوسرا روزے دار کو گالی دے کر جہالت کا ثبوت دیتا ہے تو اسے چاہیے کہ خاموش رہے، اسے جوابی طور پر گالی نہ دے۔[3]
(۳) جھوٹی باتیں برے عمل: جھوٹی باتوں اور برے کاموں سے بھی روزہ متاثر ہوتا ہے۔
حدیث میں ہے: ’’جو شخص روزے کی حالت میں کذب بیانی اور اس کے مطابق عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔[4]
(۴) غیبت وعیب جوئی: غیبت اور عیب جوئی سے بھی روزہ کار آمد نہیں رہتا بلکہ اس ڈھال کی طرح بن جاتا ہے جس میں شگاف پڑ چکے ہوں اور لڑائی میں بچاؤ کا کام نہ دے سکے۔ اس بناء پر روزہ رکھ کر وقت کٹی کے لیے ناول و ڈائجسٹ پڑھنا، ڈرامے اور فلمیں دیکھنا، کیرم بورڈ، لڈو، تاش اور شطرنج کھیلنا، اس طرح دن بھر گانے، مزاحیہ لطیفے سننا ایک دوسرے کی غیبت کرنا، ان تمام کاموں سے روزے کی روح ختم ہو جاتی ہے اور ایسے روزے کا کوئی فائدہ نہیں۔ واللہ اعلم
افطاری میں جلدی کرنا
سوال: ہم نے سنا ہے کہ افطاری جلدی کرنی چاہیے جب کہ کچھ لوگ احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی دیر سے افطاری
|