Maktaba Wahhabi

863 - 868
تحفہ کو بہت پسند کرو گے، سلطان سلیم اس خط اور افیون کو دیکھ کر بہت غیظ و غضب میں آیا اور اپنے ایلچی کے قصاص میں اس نے اسماعیل صفوی کے ایلچی کو قتل کرا دیا اور اپنے لشکر کا خوب بندوبست کر کے تبریز کی جانب (جو اسماعیل صفوی کا دارالسلطنت تھا) روانہ ہوا، شہر سیواس میں پہنچ کر اپنی فوج کی موجودات لی تو اسی ہزار سوار اور چالیس ہزار پیدل تھے اس نے سیواس سے قیصریہ تک چالیس ہزار پیدلوں کو تقسیم کر کے ہر منزل پر ایک مناسب تعداد متعین کر دی اور حکم دیا کہ جب سلطانی لشکر قیصریہ سے ایک منزل آگے بڑھے تو ہر منزل کی متعینہ فوج ایک ایک منزل آگے بڑھ جائے اور سب سے پچھلا دستہ جو سیواس میں متعین ہے وہ سیواس کو چھوڑ کر اگلی منزل میں پہنچ جائے، یہ انتظام اس نے اس لیے کیا تھا کہ سامان رسد کے پہنچنے میں آسانی رہے لیکن جوں ہی سلطان سلیم اپنی حدود سلطنت سے نکل کر ایرانی قلمرو میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ اسماعیل صفوی کے حکم سے ایرانیوں نے تمام علاقوں کو ویران اور کھیتوں کو برباد کر دیا تھا، تاکہ عثمانی لشکر کو گھاس کا ایک تنکا اور غلہ کا ایک دانہ نہ مل سکے سبز درختوں اور ہر قسم کے نباتات کو جلا کر خاک سیاہ بنا دینے کے کام پر اس نے بہت بڑی فوج متعین کر دی تھی اس فوج کا یہی کام تھا کہ عثمانی لشکر کے آگے آگے ملک کو برباد اور خاک سیاہ بناتی جائے، پہلے سے ان علاقوں میں اشتہار دے دیا گیا تھا کہ تمام باشندے اپنے اپنے سامان کو جو اٹھا سکتے ہیں اٹھا کر اور باقی کو آگ لگا کر اندرون ملک کی طرف چلے آئیں ورنہ شاہی فوج ان کو زبردستی جلا وطن کر دے گی اور ان کی تمام املاک و سامان کو جلا ڈالے گی، اسماعیل صفوی کے اس انتظام و اہتمام کا یہ اثر ہوا کہ مملکت ایران کی حدود میں داخل ہوتے ہی سلطان سلیم عثمانی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اگرچہ سلطان سلیم عثمانی نے پہلے ہی سے یہ انتظام کر لیا تھا کہ طرابزون کے بندرگاہ پر قسطنطنیہ اور یورپی صوبوں سے سامان رسد کے جہاز آتے رہیں اور وہاں سے خچروں اور اونٹوں پر لاد کر لشکر سلطانی میں سامان رسد کے پہنچنے کا انتظام رہے، اس کام کے لیے اس نے پانچ ہزار سپاہی اور بہت سے اونٹ اور خچر مقرر کر دیئے تھے، مگر پھر بھی جس علاقے میں اس کو سفر کرنا پڑ رہا تھا اس علاقے سے کسی چیز کا بھی دستیاب نہ ہونا بے حد موجب تکلیف تھا شاہ اسماعیل صفوی خود بھی فوج لے کر اپنے صوبوں کی اس مکمل بربادی میں مصروف تھا اور پیچھے ہٹتا چلا جاتا تھا، سلیم عثمانی کو توقع تھی کہ اسماعیل صفوی اپنے ملک کی سرحد سر سدراہ ہو گا۔ لیکن اس نے یہ تدبیر سوچی تھی کہ سلیم عثمانی خود ہی اتنے بڑے لشکر کو دور تک نہ لا سکے گا اور تنگ آکر پیچھے ہٹ جائے گا اسماعیل صفوی کا یہ منصوبہ بلا نتیجہ نہ رہا، سلطان سلیم کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کیا اور سرداران لشکر نے سلطان کو رائے دی کہ اسماعیل صفوی چوں کہ مقابلہ پر نہیں آتا اور پیچھے بھاگتا جاتا ہے لہٰذا اب ہم کو بھی واپس ہو جانا چاہیے، مگر سلطان سلیم
Flag Counter