ہم مغلوں کو عیسائیت کی طرف متوجہ کر دیں ، لیکن عیسائیت کے اندر یہ جذب اور کشش کہاں سے آتی جو ایک فاتح اور جنگ جو قوم کو اپنا گرویدہ اور خادم بنا لیتی۔ مغل درحقیقت دین و مذہب کے اعتبار سے لوح سادہ تھے۔ ان کے آبائی مذہب میں جس کی تفصیلات آج ہم کو معلوم نہیں ۔ کسی مذہب سے کوئی عناد اور خواہ مخواہ کی دشمنی نہ تھی۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے مغولستان کے پہاڑوں سے اسی لیے نکالا تھا کہ وہ فاتحانہ برا عظم ایشیا میں پھیلے اور دین اسلام کی روشنی سے منور و بہرہ یاب ہو۔ چنگیز خان اور اس کی قوم کا وجود بھی اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے۔ جس طرح اسلام ایک مفتوح پر اپنا اثر ڈالتا ہے اسی طرح وہ فاتح کو بھی متاثر کرتا ہے۔ عربوں نے تمام دنیا کو فتح کیا اور وہ ہر ملک میں فاتحانہ داخل ہو کر اسلام کے معلم بنے لیکن مغلوں نے غافل مسلمانوں کو مفتوح و مغلوب و مقتول بنا کر اس اثر کو اخذ کیا اور اس مذہب کے آگے گردنیں جھکا دیں جو ان کے مسلمان مفتوحین کا مذہب تھا۔ اس اجمال کی تفصیل آئندہ صفحات میں آنے والی ہے۔
اوکتائی خان:
چنگیز خان کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا اوکتائی خان مغلوں کا شہنشاہ تسلیم کیا گیا اور اس کے بھائی اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں پر جو چنگیز خان نے مقرر و نامزد کیے تھے قابض و متصرف ہو گئے۔ دو برس کے بعد اوکتائی خان نے اپنے تمام بھائیوں کو طلب کیا اور ایک بہت بڑی ضیافت اور جشن کے سامان مرتب کیے۔ جب سب لوگ آ چکے تو اپنے بھائیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں قاآنی یعنی شہنشاہی کے عہدے سے دست بردار ہوتا ہوں ۔ آپ جس کو مناسب سمجھیں اپنا شہنشاہ بنا لیں ۔ مگر چغتائی خان اور دوسرے بھائیوں اور سرداروں نے باصرار اس کو تخت پر بٹھایا اور مغلوں کی رسم کے موافق سب نے آفتاب کی پرستش کی۔ اس کے بعد جوجی خان کا بیٹا ہاتو خان اور پوتا کیوک خان اور تولی خان کا بیٹا منکو خان مامور کیے گئے کہ روس و بلغاریہ کی طرف فوج کشی کریں ۔ چنانچہ ان شہزادوں نے ۶۳۳ھ میں سات برس کی کوشش کے بعد ان تمام ملکوں کو مفتوح و منقاد کر لیا۔ ارغون خان سپہ سالار کو خراسان کی حکومت دسرداری پر مامور کیا گیا اور حکم ہوا کہ خراسان کے ان شہروں کو جو مغلوں کی تاخت و تاراج سے ویران ہو گئے ہیں ۔ ازسرنو آباد کیا جائے۔
اوکتائی خان ابن چنگیز خان بہت سنجیدہ مزاج اور نیک طینت شخص تھا۔ اس نے ملکوں کی آبادی اور رفاہ رعایا کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی۔ اوکتائی خان کو مسلمانوں سے خاص طور پر محبت و انسیت تھی وہ مسلمانوں کو قابل تکریم سمجھتا اور ان کو ہر قسم کی راحت پہنچانا چاہتا تھا۔ مغلوں کے دستور کے موافق غوطہ
|