Maktaba Wahhabi

660 - 868
کو سخت مصائب و شداید میں مبتلا ہونا پڑا۔ چونکہ ان کی کماحقہ، سرکوبی ابتداء میں نہ ہو سکی۔ اس لیے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ مسلمان سرداروں کو چھپ چھپ کر قتل کرنا انہوں نے اپنا خاص شیوہ بنا لیا۔ جس جگہ کوئی حاکم نہایت چست اور چوکس ہوتا وہاں یہ بالکل خاموش اور روپوش رہتے۔ لیکن جس جگہ انتظام سلطنت کو کسی قدر کمزور پاتے وہاں قتل و غارت کے ہنگاموں سے قیامت برپا کر دیتے چونکہ قرامطہ نے منافقت اور تقیہ کا لباس پہن لیا تھا اور مسلمانوں کو دھوکا دینا وہ کار خیر سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کو یہ بھی موقع مل جاتا تھا کہ وہ سلطنت و حکومت کی اہلکاریوں اور سرداریوں پر بھی فائز ہو جاتے تھے۔ چنانچہ نواح ہمدان میں ان کا ایک شخص کسی قلعہ کا قلعہ دار مقرر کر دیا گیا۔ انہوں نے اس قلعہ کو اپنا معاون بنا کر اس نواح میں خوب زور شور سے ڈاکہ زنی اور لوٹ مار شروع کر دی چونکہ ان کی جماعت خفیہ طور پر اپنا کام کرتی تھی۔ اس لیے ان کو باطنیہ گروہ کہنے لگے۔ ان باطنیوں نے رفتہ رفتہ ترقی کر کے اصفہان کے قلعہ شاہ ور پر قبضہ کر لیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ باطنیوں کے داعیوں میں ایک مشہور اور ہوشیار شخص عطاش نامی تھا جو اپنے ہم چشموں میں علم و فضل کے اعتبار سے ممتاز تھا۔ اسی نے حسن بن صباح کو اپنے عقائد کی تعلیم دی اور اپنا شاگرد خاص بنایا تھا۔ احمد بن عطاش: عطاش کا ایک بیٹا احمد نامی تھا جو باپ کی جگہ اور اپنے اور اپنی جماعت میں قابل تکریم سمجھا جاتا تھا۔ احمد اپنے گروہ سے رخصت ہو کر اپنی حالت امیر زادوں کی سی بنا کر قلعہ شاہ ور کے قلعہ دار کی خدمت میں گیا اور وہاں نوکر ہو گیا۔ چند ہی روز میں احمد نے ایسی شائستہ خدمات انجام دیں کہ قلعہ دار نے اس کو اپنا نائب بنا لیا اور تمام سیاہ و سفید کا اختیار اس کو سپرد کر دیا۔ چند روز کے بعد وہ قلعہ دار فوت ہو گیا تو احمد نے حکومت وقت سے قلعہ کی حکومت اور قلعہ داری اپنے نام حاصل کر لی۔ احمد بن عطاش نے قلعہ کا راستہ بند ہو جانے کے بعد باطنیہ گروہ کے تمام قیدیوں کو جو اس کے حلقہ حکومت میں قید تھے رہا کر دیا اور ان لوگوں نے رہا ہوتے ہی اصفہان کے علاقے میں لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ ادھر احمد نے اصفہان کے قلعہ شاہ ور کی حکومت حاصل کی۔ ادھر انہی ایام میں حسن بن صباح علاقہ طالقان و قزوین میں اپنی سازشوں کا جال پھیلا رہا تھا۔ حسن بن صباح: حسن بن صباح ملک شاہ بن الپ ارسلان سلجوقی کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی کا ہم سبق رہ چکا تھا۔ اس نے نظام الملک کے زریعہ دربار سلطانی میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر پھر وہاں اپنا
Flag Counter