بد دیانتی کا مواخذہ کرنا خود معتصم کے لیے زہر ہلاہل کا حکم رکھتا تھا۔ اور اس کی بدنامی و ناقدردانی کی شہرت کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ نیز یہ کہ افشین کی نسبت اصلاح کی بھی توقع تھی۔ مگر جب افشین کے خطوط اور طرز عمل نے اس کی غداری کو ثابت کر دیا تو معتصم کے لیے یہی مناسب تھا جو اس نے کیا۔
وزیراعظم اور دوسرے سرداروں کی مجلس نے افشین کے مقدمہ کو بڑی احتیاط اور باقاعدگی کے ساتھ سننا اور تحقیق کرنا شروع کیا۔ قید خانے سے روزانہ افشین اس کچہری میں لایا جاتا اور اس کی موجودگی میں گواہوں کے بیانات ثبوت کے کاغذات پیش کیے جاتے تھے، مازیار جو اب تک قید میں تھا افشین کے سامنے لایا گیا اور افشین کے خطوط افشین کو دکھائے اور سنائے گئے۔ افشین نے سب کا اقرار کیا۔ اور مازیار نے بھی صاف صاف حقیقت بیان کر دی۔ پھر افشین کے متعلق وہ باتیں پیش ہوئیں جن سے اس کا منافق ہونا ثابت ہوا۔ مثلاً اس کا قرآن، مساجد اور آئمہ مساجد کی بے حرمتی کرنا، زردشتی صحیفوں کی روزانہ تلاوت کرنا اور ان کو ہمہ اوقات اپنے ساتھ رکھنا، اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل رہ کر نمازیں بھی ادا کرنا اور تمام شعائر اسلامی پر عامل رہنا۔ غرض نہایت پختہ، قطعی اور یقینی طور پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ افشین دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ وہ مسلمانوں کو دھوکا دینے اور حکومت اسلامیہ کا تختہ الٹ کر مجوسی سلطنت قائم کرنے کی تدابیر میں مصروف و منہمک تھا۔
اس مقدمہ کی سماعت نہایت اطمینان کے ساتھ ختم ہوئی اور آخری فیصلہ یہ ہوا کہ مازیار کے چار سو درے لگائے جائیں اور افشین کو سزائے موت دی جائے۔ چنانچہ مازیار چار سو درے برداشت نہ کر سکا اور اسی سزا سے مر گیا۔ افشین کو سولی دے دی گئی۔ اور اس کی لاش عبرت دلانے کے لیے منظر عام پر لٹکائی گئی۔ یہ واقعہ ماہ شعبان ۲۲۶ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ افشین کی جگہ اسحق بن معاذ کو سپہ سالاری کی خدمت سپرد کی گئی۔
معتصم کی وفات:
افشین کے خطرے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد خلیفہ معتصم باللہ نے اپنے ممالک مقبوضہ کی سرحدات کی جانب سے اطمینان حاصل کیا اور جب تحقیق ہو گئی کہ اب کسی قسم کا خطرہ بدامنی و بغاوت کا باقی نہیں رہا تو اس نے کہا کہ جب تک بنو امیہ بادشاہ اور خلیفہ رہے۔ ہم کو مطلق بادشاہی اور حکومت سے حصہ حاصل نہ ہوا، لیکن ہم کو خلافت حاصل ہوئی تو بنو امیہ کی حکومت و سلطنت پھر بھی اندلس میں قائم ہے، لہٰذا اب مجھ کو دیار مغرب کی طرف فوج کشی کر کے اندلس کی حکومت بنو امیہ سے چھین لینی چاہیے، چنانچہ
|